Monday, February 20, 2023

ایک ہی وقت میں ایک سے زائد کام ایک ساتھ کرنے کے نتائج کیا ہوتے ہیں

 




ایک ہی وقت میں ایک سے زائد کام ایک ساتھ کرنے کے نتائج  بہت مہلک نکلتے ہیں ذیل میں ہم چند مہلک نتائج کا ذکر کریں گے جن کی بہت زیادہ اہمیت ہے ذہنی دباؤ پیدا ہوتا ہے اور مستقل قائم رہتا ہے اور انسان ایک بیماری کی طرف بڑھنا شروع ہو جاتا ہے جو ذہنی بیماریوں میں سے کوئی ایک ہو سکتی ہے انسان کا ذہنی الجھاؤ  کہیں کا نہیں چھوڑتا اور وہ ایک مستقل بیماری کی حالت میں آجاتا ہے بڑھاپا بڑی تیزی سے اس پر آنے لگتا ہے اور اس کے آثار شروع ہوجاتے ہیں لوگ اس حد تک اس کے عادی ہو جاتے ہیں کہ کھانا کھاتے ہوئے بھی کام کر رہے ہوتے ہیں اور ایسے لوگوں کو کہیں کا نہیں چھوڑتا  آپ شعبہ جاتی ترقی نہیں کر سکتے ہیں آپ کے معاشرے میں تعلقات دوسروں سے ہموار نہیں رہتے ہیں اور اس میں تبدیلی آنا شروع ہو جاتی ہے ترقی کے لئے ضروری  ہے اور کامیابی حاصل کرنے کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ آپ ایک وقت میں ایک ہی کام کریں مکمل توجہ دینے سے ہی بہتر نتیجہ سامنے آتا ہے ذہنی امراض سے بچ سکتا ہے مزید تفصیل آپ ویڈیو میں دیکھ اور سن سکتے ہیں https://youtu.be/xvYyqK8sChE

جیل بھرو تحریک کا تاریخی پس منظر



 

پاکستان اور ہندوستان میں اس کی روایت موجود ہے اور  سیاسی  احتجاج کی صورت میں مطالبات پیش کیے جاتے رہے ہیں اس کی روایت انگریزوں کے خلاف سیاسی تحریک کی صورت میں تاریخ میں ہمیں نظر آتی ہے جس کو اس وقت کے  انڈین نیشنل کانگریس کے لیڈر موہنداس نے شروع کیا بنیادی طور پر یہ سیاسی تحریک انگریزوں کے خلاف تھی جس کو بعد میں ہندوستان چھوڑ دو تحریک کا نام ملا  اور تاریخ میں اس کا ذکر ہمیں ملتا ہے موہن داس نے سول نافرمانی کی تحریک چلائی اور یہ دونوں تحریکیں ایک ہی وقت میں ایک ساتھ چلیں جس کے نتائج بھی سامنے آئے سول نافرمانی کی یہ تحریک اور جیل بھرو تحریک ایک ہی تحریک کے دو مختلف نام ہیں ایک ہی تصور ایک ہی مقاصد ایک ہی مطالبہ تھا جس کے نتائج بھی سامنے آئے اور ہندوستان میں انگریز مجبور ہوگئے کہ وہ عوام کی خواہشات کے مطابق حکومت عوام کو منتقل کریں اور اپنے ملک انگلستان چلے جائیں انگریز سرکار مجبور ہوگئی کہ وہ عوام کی خواہشات کے مطابق اپنا ردعمل دیں اور اپنا کردار ادا کریں پاکستان کی آزادی کی تحریک میں اس تصور نے بہت اہم کردار ادا کیا کیا اور پاکستان اور ہندوستان دو خودمختار ملک بن گئے جہاں ایک طرف ہندؤوں نے اور دوسری طرف مسلمانوں نے پاکستان کی شکل میں اپنی حکومت کی تشکیل کی اور  اپنی ثقافت کا تحفظ شروع کیا - 

Friday, February 17, 2023

پاکستان کی مڈل کلاس

پ


اکستان میں مڈل کلاس تیزی سے کم ہورہی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے بڑھتی مہنگائی نے ہر طبقے کو متاثر کیا ہے   پاکستان کی مڈل کلاس خاص طور پر متاثر ہوئی ہے مڈل کلاس میں اخلاقیات سب سے زیادہ مضبوط ہوتی ہیں جو تبدیل ہو رہی ہیں  پاکستان کی مڈل کلاس غریب ہو رہی ہے اور مڈل کلاس ختم ہو رہی ہے مڈل کلاس اپنے معیار کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتی ہے جس میں وہ ناکام ہو رہی ہے غریب طبقہ واویلا کرتا ہے شور کرتا ہے مڈل کلاس کی مثال آدھا تیتر آدھا بٹیر کی ہے قوت خرید میں کمی نے غریب کو زیادہ متاثر کیا ہے اور اس کی گرفت میں آ رہی ہے مڈل کلاس کی اخلاقیات تبدیل ہورہی ہیں جو معاشرے کو ایک نئی سمت دے سکتی لیکن اس سے بگاڑ پیدا ہوگا مڈل کلاس اپر کلاس کی نقل کرتی ہے اور اپر کے لحاظ سے ترقی یافتہ ممالک کی نقل کرتی ہے پاکستان اور بھارت کے مڈل کلاس ایک جیسے ہی حالات میں ہیں  لیکن بھارت میں مڈل کلاس ختم نہیں ہو رہی بلکہ بڑھ رہی ہے اس کی وجہ بھارت کا عمل کریں بعد میں ہے جو پاکستان کی عوام غریب آدمی سے بھی بہت بری حالت میں ہے بھارت میں غربت و غریب اس قدر زیادہ تعداد میں ہیں کہ وہاں مڈل کلاس کو فرق نہیں پڑتا بھارت کے عام غریب کو ٹوائلٹ کی سہولت حاصل نہیں ہے سیاسی و سماجی شعور سب سے زیادہ مڈل کلاس میں ہوتا ہے جس میں تبدیلی آ رہی ہے اور پاکستان ایک نئے سیاسی کلچر کی طرف بڑھ رہا ہے مڈل کلاس کے پاس پیشہ ورانہ ڈگریاں ہوتی ہیں جب کہ اعلی طبقے کے پاس اعلی سطح کی پیشہ ورانہ ڈگریاں ہوتی ہیں جن کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا 

Wednesday, February 1, 2023

کراچی سرکلرریلوے منصوبہ



 ملک کے سب سے بڑ ے شہر اور سندھ کے دارالخلا فہ کراچی کوجن مسائل کا سامنا ہے ان مین ٹر یفک اورٹرانسپور ٹ کے مسائل بھی قابل ذکر ہیں۔ شہر کی آبادی تیزی سے بڑ ھ رہی ہے اور اندرون ملک سے کسی بھی بڑ ے شہر میں آ بادی کی ہجرت کا اگرمختصر جائزہ لیا جائے تو کراچی میں سب سے زیادہ لوگ اندرون ملک سے آکر بس رہے ہیں۔ بندر گاہ اور صنعتی شہر ہونے کی وجہ سے روزگار کے وسیع تر زرائع باعث کشش ہیں۔ تیزی سے بڑھتی آبادی نے جن مسائل کو گھمبیر حد تک متا ثر کیا ہے وہ عوامی سواری کے زرائع ہیں۔ لوگ پبلک ٹرانسپورٹ کی چھتوں پر بیٹھے اور لٹکے نظر آتے ہیں خصوصاً صبح و شام میں یہ مناظر بکثرت دیکھے جا سکتے ہیں۔ حکومت سندھ کی جانب سے کراچی شہر کے لئے اس مسئلے پر بھرپور توجہ دی گئی ہے اورکراچی سرکلر ریلوے کو دوبارہ سے شروع کرنے کا منصوبہ تکمیلی مراحل میں ہے۔ اندرون شہر ریل کا نظام دنیا کے ممالک میں موجود ہے جہاں کسی شہر کی آبادی بڑھ جاتی ہے اور یہ سروس شہریوں کو ریلیف فراہم کرتی ہے کیونکہ وقت کی بچت کے ساتھ ساتھ باکفایت بھی ہوتی ہے۔کراچی سرکلر ریلوے کا آغاز 1964میں ہوا جس میں 1970کے عوامی جمہوری دور میں مزید توسیع دی گئی اور پھر اسے دسمبر1999میں بند کر دیا گیا۔

کراچی سرکلر ریلوے کو کراچی کو ترقی یافتہ،روشن اور جدید بنانے کی کاوشوں کا ایک حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔ریل کا یہ سفر بنیادی طور پر ایک عام آدمی کو فائدہ پہنچائے گا جو با کفایت سفر سہولت کے ساتھ کر سکے گا۔ جن وجوہات کی بنا پر یہ سروس ماضی میں بند کی گئی تھی ان میں ا سٹیشن مرکزی جگہوں سے دور ہونے کی وجہ اہم ترین تھی اور لوگ پیدل چل کر وہاں جانے کے بجائے یہ محسوس کرتے تھے کہ وہ دستیاب پبلک ٹرانسپورٹ میں کھڑے ہو کر ہی سفر کر لیں اسطرح کم ازکم وقت کی بچت تو ہو گی۔موجودہ منصوبے میں ایسی سہولت مہیا کرنے کی ضرورت ہے جو عوام کو آسانی فراہم کرسکیں ماضی کے دور دراز سمجھے جانے والے اسٹیشن اب دور دراز نہیں رہے اب صورتحال میں تبدیلی آچکی ہے اور یہ منصوبہ بہترین نتائج لائے گا جہاں ریلوے کی آمدنی بڑے گی وہیں عوام الناس با کفایت و باسہولت آرام دہ سفر کرسکیں گے۔کراچی سہولت کے پیش نظر ملک کے دیگر شہروں سے ممتاز ہوجائے گا کیونکہ یہ سروس پاکستان کے کسی بھی بڑے شہر میں دستیاب نہیں ہے اور یہ سہولت کراچی میں موجود ٹریفک تاثر کو تبدیل کردے گی۔ منصوبے کے تحت 23 اسٹیشن بنائے گئے ہیں جن میں اضافہ کیا جانا چائیے اور اس سلسلے میں سروے کروایا جائے تاکہ یہ منصوبہ بہتر سے بہترین میں تبدیل ہوسکے۔ اس منصوبے کے تحت 24 ٹرینیں چلائی جائیں گی جن میں 7 لاکھ سے زائد مسافر سفر کر سکیں گے۔ ہر ٹرین صرف 3 منٹ کیلئے اسٹیشن پر رکے گی اور پھر اگلی منزل کی جانب روانہ ہوجائے گی 43 کلو میٹر طویل کوری ڈور اس مقصد کیلئے تعمیر ہوگا جس کے تحت اپ گریڈنگ اور ری بلڈنگ پروسس شروع کیا جاسکتا ہے۔
چیف سیکڑری سندھ سجاد سلیم ہوتیانہ نے کراچی سرکلر ریلوے منصوبے پر ایک میٹنگ اپنے دفتر میں منعقد کی جس میں انہوں نے سیکرٹری ٹرانسپورٹ کو کراچی سرکلر ریلوے کے حوالے سے عوام کی مشکلات کو مدِنظر رکھتے ہوئے منصوبے کی جلد از جلد اور تیزی سے کام کی ہدایات جاری کیں۔ چیف سیکرٹری سندھ نے بورڈ آف ریونیو، کراچی انتظامیہ اور محکمہ مالیات کو متفقہ لائحہ عمل اختیار کرنے پر زور دیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہدایاتے جاری کیں کے کراچی سرکلر ریلوے کے ٹریک پر ہر طرح کی تجاوزات کا ہر طرح خاتمہ یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے ایم ڈی کراچی سرکلر ریلوے سے ایک ہفتے میں رپورٹ بھی طلب کی۔ سیکرٹری انڈسٹریز شازیہ رضوی، سیکرٹری مالیات سہیل راجپوت، سیکرٹری ٹرانسپورٹ طحہٰ فاروقی اور ایڈیشنل کمیشنر کراچی آئی محمد اسلم کھوسو اور دیگر افسران بھی اس موقع پر موجود تھے کراچی سرکلر ریلوے کی ذمہ داری کراچی اربن ٹرانسپورٹ کارپوریشن کو دی گئی ہے اور تمام تر معاملات کو وہ دیکھے گی۔ مرکزی حکومت اور سندھ حکومت میں کراچی سرکلر ریلوے منصوبے پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے اور مرکزی حکومت اس حوالے سے ہر ممکن تعاون کا وعدہ کرچکی ہے وفاقی وزیر ریلوے کی جانب سے 3 ماہ کے قلیل عرصے میں تربیت یافتہ عملہ دینے کا وعدہ کیا گیا ہے یہ منصوبہ ریلوے کی وزارت کیلئے بھی اضافی آمدنی کا ذریعہ ثابت ہوگا۔ مرکزی اور صوبائی حکومت منصوبے پر بطور پارٹنرشپ موجود ہیں۔ کراچی انتظامیہ کی جانب سے کراچی سرکلر ریلوے کہ حوالے سے دو اجلاس ہوچکے ہیں اور تیسرا اجلاس جلد منعقد ہوگا اس کے ساتھ ساتھ منصوبے کی سمری جلد وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو بھیج دی جائے گی۔
پوری دنیا میں ماس ٹرانزٹ سسٹم کو آبادی سے منسلک کیا جاتا ہے اور عوام الناس کو درپیش مشکلات مد نظر رکھی جاتیں ہیں۔ منصوبے کے تحت ہونے والی حکمت عملی کو عوام الناس ی مشکلات سے منسلک ہونا چایئے جس کے تحت کچھ اسٹیشن ختم کرنے کے ساتھ ساتھ نئے اسٹیشن کی تعمیر بھی مد نظر رکھنی ہوگی تاکہ منصوبہ زیادہ سے زیادہ عوام کو سہولت مہیا کرسکے یہ منصوبہ موجود عوامی جمہوری حکومت کی جانب سے عوام سے کئے گئے وعدے کی تکمیل بھی ثابت ہوگا جس کے تحت عوام کو درپیش مشکلات خصوصاً ٹریفک اور ٹرانسپورٹ سے متعلق مشکلات کا کافی حد تک خاتمہ ممکن ہو پائے گا۔ کراچی کی سڑکوں پر ٹریفک کی صورتحال گھمبیر ہے اور ہر طرح کی ٹریفک ہر وقت سڑکوں پر موجود ہوتی ہے اور کوئی الگ سے کسی ضابطے یا قاعدے کو کام میں نہیں لایا جاتا ہے۔ بھاری ٹریفک کا ہر وقت سڑکوں پر موجود رہنا ٹریفک جام کے ساتھ ساتھ حادثات کاسبب بھی بنتا ہے۔ہمیں ماس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم کی جانب چاہئے جو تیزی سے ترقی پذیر ممالک میں مقبول ہورہا ہے۔
کراچی سرکلر ریلوے کے ذریعے حادثات پر قابو پاناممکن ہوپائے گا اور ریل کا یہ سفر حادثات سے تحفظ فراہم کرے گا جو روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ کراچی میں آئے روز ہڑتال کی کال دی جاتی ہے جس سے کراچی متاثر ہوتا ہے تخمینہ کے تحت اگر کراچی میں ہڑتال ہو تو فی گھنٹہ 22 کروڑ سے زائد کا نقصان ہوتا ہے اس ہڑتال سے معطل یا متاثر نہیں ہوگی اور ہونے والے نقصان سے کسی حد تک بچنا مشکل ہو پائے گا ریلوے کی آرازی پر نا پسندیدہ اور جرائم پیشہ عناصر قابض ہیں ان سے یہ اراضی وار گزار کرائی جاسکے گی اور تجاوزات کا خاتمہ ممکن ہو پائے گا۔ اس منصوبے پر تمام تر سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے اور مرکزی و صوبائی حکومت میں مکمل ہم آہنگی موجود ہے لہٰذا امیدکی جاسکتی ہے کہ یہ منصوبہ جلداز جلد مکمل ہوکر عوام کو سہولت فراہم کرنا شروع کر دے گا موجودہ عوامی جمہوری حکومت کی کوشش ہے کے منصوبے کو ان کے دورحکومت میں ہی مکمل کرلیا جائے جس تیزی سے منصوبے پر اقدامات دیکھے جارہے ہیں خصوصاً کراچی انتظامیہ کی گہری دلچسپی کے باعث یہ منصوبہ وقت سے پہلے ہی مکمل ہونے کے امکانات ہیں۔ 
کراچی سرکلر ریلوے منصوبے کا تخمینہ 26 بلین روپے لگایا گیا ہے اور اسے آئندہ بجٹ میں منظوری مل جائے گی اس منصوبے پر مرکزی حکومت بھی فنڈ مہیا کررہی ہے جبکہ جاپان کی حکومت نے اس منصوبے کیلئے 2.5 بلین کی امداد جاری کردی ہے یہ فیصلہ جاپان کی حکومت نے کراچی کے باشندوں کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگست 2013 میں کیا جس وجہ سے ماضی میں یہ سروس بند کی گئی وہ مالی خسارہ تھا اب یہ منصوبہ حکومت کو اضافی آمدنی کا ذریعہ ثابت ہوگا۔ کراچی انتظامیہ نے منصوبے کی تمام تر تفصیلات سے چیف سیکرٹری سندھ اور وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو آگاہ کردیا ہے۔ منصوبے کی افادیت کے پیش نظر ہر سطح پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے اور یہ منصوبہ ایک ترقی اور سنگِ میل ثابت ہوگا یہ ایک اہم ترین منصوبہ ہے اور اس کی افادیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔موجودہ ٹریفک نظام اس سے بہتر ہوگا اور سڑکوں پر ٹریفک جام ختم ہوگا۔ 43 کلو میٹر طویل ٹریک ڈرگ روڈ اسٹیشن سے شروع ہوکر شاہراہ فیصل سے گزرتے ہوئے گلشن اقبال میں داخل ہوگا جہاں سے لیاقت آباد، ناظم آباد، سائیٹ، کھارادر سے ہو کر سٹی اسٹیشن پر اختتام پزیر ہوگا یہ روٹ یا ٹریک سابقہ ہے جسے قائم رکھا گیا ہے۔ تاکہ منصوبے کی جلد از جلد تکمیل کو یقینی بنایا جا سکے۔ خصوصیت سے تجارتی و صنعتی اداروں سے یہ سروس گزرے گی جس سے ان اداروں کو مزید ترقی ملے گی وہیں عام آدمی یا مزدور طبقے کے افراد اس ریل سروس سے استفادہ کرسکیں گے اور وقت پر اپنے کاموں یا کارخانوں میں جاپائیں گے جو اکثر ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے وقت پر حاضر نہیں ہو پاتے اور صنعتی پیداوار کو دھچکا لگتا ہے۔خصوصیت سے سائیٹ صنعتی علاقہ اس سروس سے بھرپور ہوپائے گا۔ جائیکا(JAIKA) جو کے جاپانی کمپنی ہے جو اس منصوبے پر ٹیکنیکی اوراد کے ساتھ ساتھ مالی تعاون کی یقین دہانی کرائی جاچکی ہے۔ کمپنی اس ضمن میں مزید سرمایہ کاری کر سکتی ہے یہ منصوبہ نئی صدی کا منصوبہ قرار دیا جارہا ہے۔ خصوصیت سے83 فٹ چوڑا کوریڈور ایک منفرد سروس فراہم کرے گا کاور کراچی کو ایشیاء کا جدید شہر بنانے کی جانب پیش رفت ممکن ہوپائے گی۔ جہاں عوام الناس میں اس منصوبے پر اس منصوبے پر پسندیدگی موجود ہے وہیں یہ منصوبہ عوام کو درپیش مسائل کا حل بھی فراہم کرے گا۔
جن مسائل پر قابو پانا اس منصوبے کے زریعہ ممکن ہو پائے گا اُن میں صبح و شام کے اوقات کار میں پبلک ٹرانسپورٹ کا رش شامل ہے۔ لوگ تکلیف دہ حالت میں سفر کرتے ہیں اور منہ مانگا کرایہ اور بعض اوقات ذیادہ کرایہ ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے ایندھن ضائع ہوتا ہے اور کثیر سرمایہ اس مد میں ضائع ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ یہ سروس اُن مسافروں کو بھی بہترین سہولت مہیا کرے گی جو زائد سامان یا تجارتی بنیادوں پر سامان کے ساتھ سفر کرتے ہیں وہ با سہولت و آرام دہ طریقے سے اپنے ہمراہ لائے گئے سامان کے ساتھ سفر کر سکیں گے۔وقت کی بچت کے نکتہ نظر سے اگر دیکھا جائے تو اس سروس کے زریعہ شہریوں کا قیمتی وقت بچے گا جس سے اُنھیں ذہنی اطمینان و تسکین کا احساس ہوگا۔ٹریفک جام کا مسئلہ اس سروس کی وجہ سے حل ہو جائے گا الگ سے کچھ اقدامات کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔جاپانی حکومت کی دلچسپی اس سروس کو جدید سے جدید تر بنا سکتی ہے اور وہ کراچی کے شہریوں کو یہ تحفہ دینے میں سنجیدہ نظر آتی ہے اور اس ضمن میں گرانٹ بھی جاری کر چکی ہے۔ جاپانی کمپنی اس سروس کو جدید سے جدید خطوط پر استوار کر سکتی ہے فقط بہتر پالیسی اور کام کے ساتھ عمل درآمد کو یقینی بنایا جانا مقصود ہے۔ ماضی میں وزارت ریلوے کے ما تحت یہ سروس وفاق کے پاس انتظامی نقطہ نظر سے تھی اس لئے اس پر اُس طرح سے توجہ نہیں دی گئی جو اب کراچی انتظامیہ کے پاس اس سروس کے آجانے کے لئے دی جا سکتی ہے۔ کراچی انتظامیہ شہریوں کے لئے اس سروس کی براہ راست ما نیٹرنگ کر سکے گی بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ایسے اقدامات جو شہریوں کو اس ضمن میں ذیادہ سہولت مہیا کریں کرنا ممکن ہو پائے گا۔ کراچی سرکلر ریلوے کا یہ منصوبہ اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ دراصل ایک ریلیف ہے جو تکلیف دہ حالت سے شہریوں کو چھٹکارہ دلا ئے گا۔ کراچی سرکلر ریلوے کا یہ منصوبہ کسی طور ناکام نہیں ہو سکتا البتہ اسے کسی حد تک کتنی کامیابی ملتی ہے اس کے لئے اُسی سطح کی سنجیدگی درکار ہو گی







خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف انقلابی قدم

خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف انقلابی قدم
آفتاب احمد
حکومت سندھ کی جانب سے خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف انقلابی اقدامات کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس سلسلے میں ملازمت پیشہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے سندھ حکومت نے ملازمت پیشہ خواتین کے حقوق کے ایکٹ 2010 کا نفاذ کیا ہے، جس کی رو سے ان کو تحفظ مہیا کیا گیا ہے۔ جس کے تحت صوبے بھر میں تمام سرکاری محکموں کے ساتھ ساتھ نجی اداروں میں بھی اس مقصد کے لئے کمیٹیوں کی تشکیل کی جاچکی ہے۔ اب فیکٹریوں میں قائم کمیٹی وہاں کام کرنے والی خواتین کے لئے موجود ہے۔ ان لوگوں کی تحریری درخواست پر عملی کارروائی عمل میں لانے کی پابند ہے۔ اس طرح یونیورسٹی میں بھی یہ کمیٹیاں کام کررہی ہیں اور فعال بھی ہیں۔ صوبے بھر کے تمام سرکاری و نجی اسپتالوں میں بھی یہ کمیٹیاں قائم کی جاچکی ہیں اور وہاں بڑی تعداد میں کام کرنے والی خواتین جو بطور ڈاکٹر، نرس اور دیگر خدمات سرانجام دے رہی ہیں، اس کمیٹی کو کسی بھی زیادتی کی تحریری درخواست دے سکتی ہیں۔ نجی و سرکاری سطح پر خدمات سرانجام دینے والی خواتین براہ راست تحریری درخواستیں صوبائی محتسب کو بھی دے سکتیں ہیں، جس پر فوری نوعیت کی کارروائی عمل میں لائیجائے گی۔ صوبائی محتسب کا ادارہ دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف سرگرم عمل ہے اور ایسی تحریری درخواستوں کو اولین ترجیحات میں رکھتا ہے۔ خواتین کی کارکردگی مردوں کے مقابلے میں ہر شعبے میں بہتر ہے، کیونکہ وہ پوری سنجیدگی سے اپنے فرائض سرانجام دیتی ہیں۔ وہ دورانِ زچگی اضافی مراعات بھی حاصل کرتی ہیں جو ان کا حق ہے۔
خواتین کو ہراساں کرنے کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے اور عموماً ایسا اس لئے بھی کیا جاتا ہے کہ ان کے مقابلے میں موجود مرد مطلوبہ صلاحیت و قابلیت نہیں رکھتے اور اخلاقی دیوالیہ پن اُن کو ہراساں کرتا ہے۔ تعلیم کے شعبے میں خواتین بہترین خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ مرد اساتذہ کے مقابلے میں وہ پوری طرح سے اپنے فرائض سرانجام دیتی ہیں اور ان کی حاضری بھی پوری ہوتی ہے۔ بطور ماں بھی وہ ہمہ وقت تعلیم و تربیت فراہم کررہی ہوتی ہیں اور اس کے اثرات تعلیمی ماحول پر بھی محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ ابتدائی تعلیم کے پانچوں درجوں کے لئے خواتین اساتذہ کے ساتھ ساتھ مرد اساتذہ بھی اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور ان کی کارکردگی خواتین کے مقابلے میں کم تر ہے اور ان کی حاضری کی شرح شرمناک ہوتی ہے۔ حاضر ہونے کے باوجود وہ حاضر نہیں ہوتے اور اپنا وقت جدید موبائل فون سے کھیلنے میں گزارتے ہیں۔ جبکہ خواتین سنجیدگی سے درس وتدریس کرتی ہیں اور اُن کے اندر موجود ماں یا ماں کی شفقت بچوں کے لئے کارآمد ثابت ہوتی ہے۔ ابتدائی تعلیم کے پانچوں درجوں کے لئے خواتین اساتذہ ہی رکھنے سے تعلیم میں بہت زیادہ بہتری لائی جاسکتی ہے۔ خواتین اساتذہ پر یہ دباؤ بھی موجود ہوتا ہے کہ وہ تدریس کا عمل درست کریں یا مردوں کی طرح سنجیدگی دکھائیں اور یہ دباؤ ہراساں کرنے کی حد تک ان پر موجود ہوتا ہے۔ اس طرح مرد اساتذہ کو اخلاقی جواز مل سکتا ہے جو کہ اکثر نہیں ملتا ہے۔
 شعبہ تعلیم سے ہٹ کر بھی دوسرے تمام شعبوں میں باعمل خواتین اپنی کارکردگی دکھا رہی ہیں اور کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جہاں انہوں نے کوئی کمال نہ دکھایا ہو۔ سیاست کے میدان میں بھی خواتین نے بہت سے عہدے حاصل کرکے اپنا لوہا منوایا ہے۔ خواتین میں موجود سنجیدگی فطری ہے اور بعض حالات میں یہ سنجیدگی اور کارکردگی ان کو ہراساں کرنے کا مؤجب بھی بنتی ہے۔ ہراساں کرنے کا عمل دراصل اپنے آپ کو کمتر سمجھنے کا ایک احساس ہے اور یہ اس وقت جنم لیتا ہے جب کسی خاتون کی صلاحیت و قابلیت مرد کو پریشانی میں مبتلا کرتی ہے۔ ہراساں کرنے کی ایک بنیاد جنسی اور جنس سے وابستہ بھی ہے، جس کے تحت طاقت کا اظہار مختلف طریقوں سے کیا جاتا ہے۔ ملازمت پیشہ خواتین کے لئے خوف و ہراس کا ماحول پیدا کیا جاتا ہے اور وہ خوفزدہ ہوکر یا تو ملازمت چھوڑ کر گھر بیٹھ جاتی ہیں یا پھر مصلحت سے کام لیتے ہوئے اور اپنی مجبوری کو مدِنظر رکھتے ہوئے مرد ساتھیوں کی بات مانتی ہیں۔ ایسا ماحول پیدا کرنا غیراخلاقی اور غیر قانونی ہے اور اس کے خلاف ملازمت پیشہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے ایکٹ 2010کے تحت کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔ خواتین کی تحریری درخواست اور تحریری درخواست کی حوصلہ افزائی اس طرح کے ماحول کے خاتمے میں مددگار ثابت ہوتی ہے اور ماحول کو بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔ مرد ساتھیوں کی جانب سے آوازیں کسنے کے واقعات بھی رپورٹ ہوتے ہیں اور یہ عمل اخلاقی دیوالیہ پن کی انتہا ہے۔ جہاں خواتین اس عمل سے ہراساں ہوتی ہیں وہیں مردوں کی جانب سے بیک وقت کمزوری و طاقت کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ جسمانی طور پر کمزور خواتین پر آوازیں اس لئے بھی کسی جاتی ہیں کے وہ مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ ایسا کرنے والے مرد خود اپنی کمزوری کا اظہار بھی کررہے ہوتے ہیں۔ عموماً وہ مرد ہی کسی خاتون پر آوازیں کستا ہے جو اخلاقی طور پر کمزور اور جسمانی طور پر مضبوط ہوتا ہے۔ یہ عمل خوفزدہ کرنے کے زمرے میں بھی آتا ہے۔ اس کے خلاف تحریری درخواست پر کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے اور اس کو نظرانداز کرنے سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ آوازین کسنے والا مرد پھر خاتون کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے اور یہ دوسرے درجے میں ہوتا ہے۔ یہ عمل بھی ہراساں کرنے میں آتا ہے اور خلاف قانون ہے، جس کی سزا مقرر ہے۔ ہاتھ پکڑنے کا عمل اگر خاتون کی رضامندی سے ہو تو یہ غیرقانونی عمل نہیں ہے اور کسی خاتون کی جانب سے تحریری درخواست اس امر کا ثبوت ہوتا ہے کہ اس کی رضامندی شامل نہیں تھی۔
افسران ماتحت خواتین کو ہراساں کرنے کا باعث بنتے ہیں اور ایسے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ زبردستی تعلق رکھنے پر مجبور کرنا بھی اس زمرے میں آتا ہے۔ انکار پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دینا دراصل جنسی ہراساں کرنا ہے، جس کی سخت سزا مقرر ہے۔ ماتحت کی دفتری مراعات اور ترقی کے مواقع جو ذاتی تعلقات سے نتھی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مجبوری کی حد تک معاملات کو لے جایا جاتا ہے، جو کہ جنسی ہراساں کرنا ہے۔ خاتون کی کسی کمزوری یا ذاتی معاملے کو بھی اس ضمن میں استعمال میں لایا جاتا ہے اور اس سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ماتحت کو ملازم کی جگہ غلام سمجھ کر کیا جانے والا سلوک جنسی ہراساں کرنا ہے اور خواتین کو خوفزدہ کرکے مطلوبہ مقاصد حاصل کرلئے جاتے ہیں۔ عموماً خواتین بھی اس میں مرد افسران کا ساتھ دیتی ہیں۔ یوں خاتون، خاتون پر ظلم کرتی ہے اور بدلے میں کچھ مراعات یا فوائد حاصل کرتی ہے۔
 صوابدیدی اختیار کا غلط استعمال موجود ہے اور یہ صوابدیدی اختیارات خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے میں بھی استعمال ہورہے ہیں۔ مطلوبہ مقاصد حاصل نہ ہونے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں اور اشاروں میں اس کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ عورت مرد کے اشاروں کو بخوبی سمجھ سکتی ہے کیونکہ اس کی حساسیت غیرمعمولی ہوتی ہے اور ایسا بطور عورت اسے برتری حاصل ہے۔ وہ مرد کا ارادہ بغیر بات کئے سمجھ لیتی ہے اور بعض صورتوں میں اس قابل بھی نہیں ہوتی ہے کہ کوئی قانونی کارروائی اس ضمن میں کرسکے۔ خواتین اس پر مختلف طریقوں سے ردعمل دیتی ہیں۔ کچھ خواتین مزاحمت نہیں کرتیں ہیں اور یہ دراصل وہ اپنے آپ سے ظلم کرتی ہیں۔ دوسری خواتین اس کے خلاف ردعمل ظاہر کرتی ہیں اور بعض حالات میں تحریری درخواست دیتی ہیں اور یہ عمل ان کے حقوق کو استحکام کی جانب لے جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ خواتین ایسی ہوتی ہیں جو ملازمت چھوڑ دیتی ہیں۔ جو خواتین ملازمت چھوڑ کر گھر بیٹھ جاتی ہیں وہ اپنے آپ کے ساتھ ساتھ معاشرے کے ساتھ بھی ظلم کرتی ہیں کہ معاشرہ ان کی خدمات سے محروم رہ جاتا ہے اور ان کی تعلیم بھی ضائع ہو جاتی ہے۔
 ملازمت پیشہ خواتین کے حقوق کا تحفظ 2010ء کے ایکٹ میں موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کا بھرپور فائدہ معاشرے کو بہتر بنانے کے لئے اُٹھایاجائے اور اخلاقی بنیادوں پر ایک ایسا ماحول تشکیل پائے جہاں خواتین کی عزت کی جائے اور ان کو ہراساں کرنے والوں کے خلاف فوری نوعیت کی کارروائی عمل میں لائی جائے۔

Tuesday, August 4, 2020

یومِ ‏استحصال ‏

کشمیر آج دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے اور بھارتی جارحیت مسلسل کشمیری نسل کا استحصال کرنے میں مصروف عمل ہے اور انسانی تاریخ میں تشدد کا ایک بھی ایسا طریقہ موجود نہیں ہے جو اس جنت نظیر وادی میں نہیں آزمایا گیا ہو ۔ دنیا بھر میں یومِ استحصال منانے کی تیاریاں ہورہی ہیں اور یومِ استحصال اسی مناسبت سے پاکستان میں بھی منایا جائے گا جہاں حکومت کی طرف سے باقاعدہ اعلان کیا گیا اور سرکاری تعطیل بھی کرنے پر غور کیا جارہا ہے 
کشمیر ایک ایسا مسئلہ ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہوسکتا ہے اور بھارت کی ہٹ دھرمی رکاوٹ ہے اور جس کشمیر کے ٹکڑے کو بھارت اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے وہاں مسلسل لاک ڈاؤن کرتے ہوئے اس کو برقرار بھی رکھے ہوئے ہے جہاں دنیا کا طویل ترین لاک ڈاؤن دیکھنے کو ملا اور بھارت کی طرف سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے جو اقدامات کشمیر میں کئے گئے وہ شرمناک ہیں اور ان اقدامات کو سیاسی ضرورت کے مطابق ڈھالا گیا جس پر بین الاقوامی میڈیا کی نظریں مرکوز ہیں اور بھارت دنیا بھر کو بیوقوف بنانے میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوچکا ہے ۔
بھارت اپنی تجارتی منڈی کو کشمیر کی جدوجہد کے خلاف استعمال کرتا آرہا ہے اور اس میں بھی کسی حد تک کامیاب بھی ہوا ہے اور وہ تجارتی فائدے کو اس شرط سے جوڑتا ہے کہ کشمیر کے معاملے پر خاموشی اختیار کی جائے جس کو وہ ڈپلومیسی کا نام بھی دیتا ہے ۔ 

Saturday, August 1, 2020

کورونا ‏وائرس ‏سے ‏بچنا ‏کیوں ‏ضروری ‏ہے ‏؟

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے شہری بہتر سماجی اور سیاسی شعور بھی رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہاں کورونا وائرس سے بچاؤ کے لئے جو اقدامات کیے جاتے ہیں وہ عوامی تائید حاصل کرتے ہیں اور عوام ان تدابیر پر عمل پیرا بھی ہوتے ہیں اور عوامی شعور نے 
بہت سے ممالک میں وباء پر قابو پانے میں اہم کردار بھی ادا کیا ہے - 










یہ سوال اھمیت کا حامل ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے شہری زندگی سے کیوں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اور وائرس سے بچنا چاہتے ہیں تو اس کا جواب بہت سادہ ہے کہ وہ بہترین زندگی اور بہترین وسائل رکھتے ہیں اور ایسے لوگ زندگی سے بھرپور انجوائے بھی کرتے ہوئے اپنے آپ کو مزید بہترین بنانے پر ایمان رکھتے ہیں اور ان میں سے اکثر لوگ کامیاب بھی ہوتے ہیں کیوں نہ ایک ایسا نظام زندگی وہاں موجود ہے جو اس مقصد کے حصول میں معاون ہے جو انسانی ضرورت سے آگے تک انسان کو رہنمائی بھی دیتا ہے ۔ اگر جائزہ لیا جائے ان ممالک کا جہاں غربت اور آبادی بے تحاشہ ہے تو یہ امر واضح نظر آتا ہے کہ وہاں لوگ اپنی زندگی میں بھرپور دلچسپی نہیں رکھتے ہیں اور وباء سے نمٹنے کے اقدامات بھی ایک طرف کھڑے نظر آتے ہیں اور لوگوں میں کسی قسم کا کوئی خوف بھی موجود نہیں ہے کہ وہ بیمار ہوسکتے ہیں اور وباء ان کی جان بھی لے سکتی ہے کیوں کہ عوام غربت کے ساتھ ساتھ بیروزگاری اور دیگر اھمیت کے حامل مسائل سے دوچار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں لوگ کھچا کھچ بھرے ہوئے نظر آتے ہیں اور کراچی میں تو پبلک ٹرانسپورٹ کی چھتوں پر بھی بیٹھے ہوئے مسافر کورونا وائرس کے ہر خوف سے اس لئے آزاد دکھائی دیتے ہیں کہ ان کی زندگی میں زندہ رہنے اور مرنے میں زیادہ فرق نہیں ہے اور بہت سے لوگ شاید اس لئے بھی خوف سے آذاد ہیں کہ ان کے پاس علاج کیلئے رقم بھی نہیں ہے جو ان کو دور رکھے ۔ 

پاکستان کی طرح بھارت میں غربت انتہاء کو چھو رھی ہے اور پندرہ کروڑ افراد بیروزگاری سے لطف اندوز ہوتے دکھائی دیتے ہیں جو وباء سے پہلے روزگار سے وابستہ تھے جو اب نہیں رہے اور معاشرے میں ان لوگوں کی بہت بڑی تعداد بھی موجود ہے جو پیسوں کیلئے اپنی زندگی کو بھی داؤ پر لگا سکتے ہیں اور ان کے بیوی بچوں کو آئندہ زندگی کی سہولیات مل سکیں ۔ اگر وہاں کی حکومت اعلان کرے کہ جن افراد کو کورونا انفیکشن ہوچکا ہے ان کو رقم دی جائے گی کہ وہ اپنا علاج کرواسکیں تو کروڑوں لوگ اپنے آپ کو انفیکشن میں مبتلا کرلیں گے ۔ آپ کی ذمہ داریاں جو آپ ادا کرتے ہیں اور آپ کا احساس کہ آپ معاشرے کا کارآمد فرد ہیں آپ کو یہ حق دیتا ہے کہ آپ صحت مند زندگی گزاریں اور زندگی سے انجوائے کریں اور یہ غربت میں بھی ممکن ہے 

آج کی دنیا میں ایک طبقہ جو طبی طبقہ کہلاتا ہے قابل ستائش ہے جو سب سے پہلے اپنی زندگی بچا کر دوسرے لوگوں کی زندگی بچانے میں فعال کردار ادا کررہا ہے اور یہ طبقہ ایک پیغام بھی دیتا ہے کہ آپ احتیاطی تدابیر کورونا وائرس کے علاوہ دیگر امراض سے بھی آپ کو بچاتی ہیں اور مقاصدِ زندگی کو واضح طور پر دیکھنے سے زندگی سے آپ پیار کرنے لگتے ہیں اور خود ہی محفوظ بنانے کی سعی بھی کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ تحقیقی اور تخلیقی کام کرنے والے افراد کی غالب اکثریت اس معاملے پر زیادہ حساس ہے اور وہ اپنی زندگی کی بہت پرواہ بھی کرتے ہیں اور اس کو بہترین انداز میں گزارنا بھی چاہتے ہیں 

Today and tomorrow

The political situation that has been in the background of the current situation in Kashmir has been highlighted in this video.  Kashmir Tod...