Showing posts with label تاریخی ‏تناظر ‏برائے ‏جمہوریت ‏. Show all posts
Showing posts with label تاریخی ‏تناظر ‏برائے ‏جمہوریت ‏. Show all posts

Friday, July 24, 2020

انصاف کا مہذّب تصور

دنیا اتنی مہذّب نہیں تھی جتنی آج محسوس کی جاسکتی ہے اور انسانی ارتقاء دراصل تہذیب کا سفر بھی اس جس نے انسان کو آج اس قابل بنایا ہے کہ وہ غلط ، ٹھیک کے درمیان فرق نہ صرف سمجھ سکے بلکہ سمجھا بھی سکے - انسان کا سفر غاروں سے شروع ہوا جہاں وہ کچا گوشت کھایا کرتا تھا اور پھر عورت کی مہربانی سے اتفاقاً آگ کی دریافت نے پکانا سکھایا ، انسان رفتہ رفتہ مہذّب بنا اور سمندر یا دریاؤں کے کنارے بستیاں بسائیں 

معاشرے کے ساتھ ضوابط طے کرنے کی ضرورت تھی اور قوانین بنائے گئے جس نے معاشرے اور انسان کو مزید مہذّب بنانے میں اھم کردار ادا کیا اور قوانین کے نفاذ سے متعلق مسائل بھی سامنے آئے جس پر قابو پانے کی ہر کوشش معاشرے کو مزید تہذیب یافتہ بنانے کی کوشش بھی تھی ۔

دنیا میں کہیں زیادہ بہتری آئی اور کہیں کم بہتری نظر آئی لیکن تہذیب کا سفر آگے بڑھا اور پھر جمہوریت کے تصور نے انسان کو برابری دلوانے میں کردار ادا کرنا شروع کیا اور قوانین میں انسان حقوق اھمیت اختیار کرگئے 

اور ایسے تصورات مضبوط ہوئے جو انسانی حقوق اور جمہوریت کی وجہ سے قوانین کو انسانی فلاح و بہبود کیلئے اِستعمال کرنے پر زور دیتے تھے اس دور کے اثرات دنیا کے کئی ممالک اور معاشروں میں دکھائی دیتے ہیں جہاں قوانین انصاف کا مہذّب تصور نہیں رکھتے اور انسانی معاشرے میں بے چینی کا باعث بنے ہوئے ہیں ۔ 
جن امور کو قابلِ غور سمجھنا چاہیے ان میں سزا کا تصور بھی ہے جس کو مہذّب معاشرے میں اس طرح لیا جاتا ہے کہ جب تک مجرم قرار نہیں دیا جائے سزا شروع نہیں ہوسکتی ہے ۔ لوگ برسوں جیل میں قید رہتے ہیں جو اذیت ہے جو وہ خود اور اس کے خاندان کے افراد جھیلنے پر مجبور ہیں اور ضمانت کو فرد اور معاشرتی حقوق کے تناظر میں قابلِ غور ہونا چاہئے اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو یقینی بنانے کی بھی اشد ضرورت ہے کہ کسی بھی طرح سے شخصی توہین نہ ہو اور گرفتاری بطورِ حق ظلم اور ہراسانی کیلئے کسی بھی طور پر استعمال نہیں کیا جائے اور مہذّب دنیا کی طرح دستور کے تحت انسانی احترام کو مدنظر رکھتے ہوئے قانونی کارروائی ادا ہو ۔ 

Friday, June 26, 2020

جمہوریت ‏اور ‏عام ‏آدمی ‏

انسانی تاریخ میں ریاست کے قیام کو معاشرتی ارتقاء میں ایک سنگِ میل قرار دیا جاتا ہے - ریاست کے بننے سے انسانی مشکلات میں واضح کمی آئی اور جدید معاشرے کے لئے ایک جدوجہد کا آغاز ہوا - ابتداء میں روحانی پیشواؤں یا قبائلی سردار طاقتور سمجھے جاتے تھے اور یہ افراد ہی ملکر حکومت کی تشکیل کیا کرتے تھے - یہ افراد زمینوں کے مالک بھی ہوتے تھے اور اپنی طاقت سے مذید طاقت حاصل کرتے تھے اور ایسا ماحول موجود تھا جس میں عام آدمی کا کردار اطاعت سے زیادہ نہیں تھا - جنگوں کے نتیجے میں ریاستوں کی ٹوٹ پھوٹ ہوتی رہتی تھی اور نئی نئی ریاستیں وجود میں آتی رہتی تھیں - حکومت کا معیار طاقت تصور کیا گیا اور صدیوں تک دنیا طاقت کے حصار میں قید نظر آتی ہے - طاقتور کے الفاظ قانون کا درجہ رکھتے تھے اور عام افراد محکوم تھے جن کی کوئی اھمیت موجود نہیں تھی ان کی مرضی و منشاء کی کوئی اھمیت سرے سے ہی نہیں تھی جبکہ یہ تعداد میں بہت زیادہ تھے اور حکمرانوں کا جہاں بیرونی حملوں کے خدشات پریشان کن بنتے تھے اور اس ضمن میں وہ اکثر ضروری نوعیت کے اقدامات بھی اٹھایا کرتے تھے وہیں اس غالب اکثریت کے لئے بھی ایسے اقدامات کئے جاتے تھے جس سے ان کو قابو میں رکھا جائے اور یہ آسان نہیں ہوتا تھا اور ان اقدامات کے نتیجے میں مظالم جنم لیتے تھے اور ہمیشہ قانون طاقت ور کا ساتھ دیتا اور ریاستی ڈھانچے کو تقویت بھی فراہم کرتا تھا - ریاست کی ترقی کا سفر جاری رہا اور باقاعدہ بادشاہت نے ریاستی خدوخال میں تبدیلی پیدا کی - بادشاہت طاقتور سرداروں اور روحانی پیشواؤں کو خوش رکھنے اور ان کو اپنے ساتھ رکھنے کی ترغیب میں نظر آتی کیوں کہ اس سے بادشاہت مضبوط ہوتی تھی - اعلیٰ فوجی افسران کی بھی اھمیت تھی اور یہ سردار بھی ہوتے تھے اور مجموعی طور پر بادشاہ انہی لوگوں میں سے زیادہ طاقت ور فرد ہوتا تھا اور زیادہ طاقت کو حکمرانی کے جواز کے طور پر پیش کیا جاتا تھا اور جو اطاعت سے انکار کرتے تھے ان سے جنگ کی جاتی تھی اور فاتح حکمرانی کا حق استعمال کرتا اور اس کو جواز ثابت کرتا تھا - عام افراد کیلئے اطاعت سے زیادہ کچھ نہ تھا اور جو اطاعت سے انکار کرتے تھے ان کے لئے سخت سزائیں اور قیدخانے موجود تھے جہاں سے وہ اس وقت نکالے جاتے تھے جب ان کی موت واقع ہوجاتی تھی اور آج بھی معاشرے میں اس کا عکس موجود ہے اور طاقتور طبقے کی یہ خواہش موجود ہے کہ وہ اپنی اجارہ داری کیلئے مظلوم عوام پر طاقت کا استعمال کریں - ریاست کی ابتداء کے ساتھ ہی ایسے افراد بھی پیدا ہوئے جو شعور میں دیگر افراد سے بڑھ کر تھے اور جن کو دانشور کہا گیا ان کی ایک بڑی تعداد ریاست سے اختلاف رائے کی وجہ سے ہلاک کردی گئی - ان ہی لوگوں میں سے بعض نے شاعری کی اور ادب بھی تخلیق کیا اور جن لوگوں نے ریاست کے بارے میں سوچا انہوں نے زیادہ بہتر مقام حاصل کیا اور وہ آج تاریخ کا ایک اھم حصہ ہیں - ریاستی سطح پر مختلف تجربات کئے گئے اور اس میں بادشاہ کی مرضی کا بھی عمل دخل رہا اور کچھ ایسے تجربات بھی ہوئے جو حکمرانوں کی مرضی کے خلاف تھے اور ان ہی سیاسی نوعیت کے تجربات نے تاریخ رقم کی اور جو سیاسی افکار و نظریات کے تحت عام فرد کو محور بنا دیا کئے گئے - عمومی طور پر یہ تجربات انتہائی چھوٹی ریاستوں یا شہروں میں کئے گئے اور بادشاہت کو یہ باور کرایا گیا کہ ان سے ان کی حکمرانی کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور اس کے نتائج ایسے آئیں گے جس سے عوام الناس بہتر انداز میں قابو میں رہیں گے اور یوں جمہوریت کی ابتدائی تجربات ظہور پذیر ہوئے اور ابتدائی طور پر نوابوں اور رؤسا کیلئے جمہوریت لائی گئی جو حکومت میں حصہ بنانے کے لئے ناگزیر ضرورت تھے اور ان پر مشتمل پارلیمانی نظام کا آغاز بھی ہوا جس میں وقت کے ساتھ ساتھ عوام بھی داخل ہوئے اور انہوں نے بھی حکومت میں اپنا حصہ طلب کیا اور ابتدائی تاریخ کا مطالعہ یہ ثابت کرنا ہے کہ عوام کو حکومت میں حصہ اور حق رائے دہی ایک رعایت سمجھ کر دیا گیا اور آج ریاست کے مالک ہی عوام ہیں - یوں محدود سطح سے جمہوریت کا سفر شروع ہوا اور عوام الناس تعداد میں زیادہ تھے لہٰذا وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ سب کچھ ان کے حق میں ہوتا چلا گیا اور جمہوریت کی ماں برطانیہ میں دارلعوام طاقتور ہوا جبکہ اس سے پہلے دارلعمراء سب کچھ تھا اور تمام انسانوں فیصلے وہیں سے کئے جاتے تھے - جمہوریت کیلئے جو جدوجہد کی گئی اس کی ایک تاریخ موجود ہے اور وہ تاریخ رنگین بھی ہے اس میں انسانوں کا لہو شامل ہے اور جب جمہوریت عام آدمی کا ذاتی معاملہ بنی تو تیزی سے تبدیلیاں آئیں اور صنعتی دور میں معاشرے کی ضرورت ہی جمہوریت تھی جس کے بغیر معاشرہ آگے نہیں بڑھ سکتا تھا اور اختلاف رائے نے ایک نیا ماحول تشکیل دیکر جمہوریت کو مضبوط کیا اور بادشاہت ماضی کا ایک ایسا قصہ ہے جس میں انسان کو اذیت کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آتا ہے اور ماضی کی بوسیدگی آج تحقیق کی حد تک زندہ ہے 

SENATE OF PAKISTAN

Under the constitution of Pakistan, there is a two-member parliament, one is the National Assembly and the other is the Senate of Pakistan.T...