معاشرے کے ساتھ ضوابط طے کرنے کی ضرورت تھی اور قوانین بنائے گئے جس نے معاشرے اور انسان کو مزید مہذّب بنانے میں اھم کردار ادا کیا اور قوانین کے نفاذ سے متعلق مسائل بھی سامنے آئے جس پر قابو پانے کی ہر کوشش معاشرے کو مزید تہذیب یافتہ بنانے کی کوشش بھی تھی ۔
دنیا میں کہیں زیادہ بہتری آئی اور کہیں کم بہتری نظر آئی لیکن تہذیب کا سفر آگے بڑھا اور پھر جمہوریت کے تصور نے انسان کو برابری دلوانے میں کردار ادا کرنا شروع کیا اور قوانین میں انسان حقوق اھمیت اختیار کرگئے
اور ایسے تصورات مضبوط ہوئے جو انسانی حقوق اور جمہوریت کی وجہ سے قوانین کو انسانی فلاح و بہبود کیلئے اِستعمال کرنے پر زور دیتے تھے اس دور کے اثرات دنیا کے کئی ممالک اور معاشروں میں دکھائی دیتے ہیں جہاں قوانین انصاف کا مہذّب تصور نہیں رکھتے اور انسانی معاشرے میں بے چینی کا باعث بنے ہوئے ہیں ۔
جن امور کو قابلِ غور سمجھنا چاہیے ان میں سزا کا تصور بھی ہے جس کو مہذّب معاشرے میں اس طرح لیا جاتا ہے کہ جب تک مجرم قرار نہیں دیا جائے سزا شروع نہیں ہوسکتی ہے ۔ لوگ برسوں جیل میں قید رہتے ہیں جو اذیت ہے جو وہ خود اور اس کے خاندان کے افراد جھیلنے پر مجبور ہیں اور ضمانت کو فرد اور معاشرتی حقوق کے تناظر میں قابلِ غور ہونا چاہئے اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو یقینی بنانے کی بھی اشد ضرورت ہے کہ کسی بھی طرح سے شخصی توہین نہ ہو اور گرفتاری بطورِ حق ظلم اور ہراسانی کیلئے کسی بھی طور پر استعمال نہیں کیا جائے اور مہذّب دنیا کی طرح دستور کے تحت انسانی احترام کو مدنظر رکھتے ہوئے قانونی کارروائی ادا ہو ۔