Showing posts with label Mental Health. Show all posts
Showing posts with label Mental Health. Show all posts

Saturday, June 27, 2020

موجودہ ‏حالات ‏میں ‏پیدا ‏شدہ ‏ذھنی ‏مسائل ‏اور ‏ان ‏کے ‏سماجی ‏محرکات ‏

آج  کا انسان سماجی دوری کا عادی نہیں ہے اور جب کوروںا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے اقدامات کئے گئے تو سماجی دوری کو سب سے زیادہ اھمیت دی گئی جس کے نتیجے میں انسانی ذھن الجھن کا شکار ہوگیا اور چونکہ وہ اس نئی صورتحال کے لئے تیار نہیں تھا لہٰذا اِس کے نتیجے میں ذھنی تناؤ نے جنم لیا اور ذھنی طور پر بیمار افراد نے اپنی صحت مند بیویوں سے بھی دوری اختیار کرلی یہ جانتے ہوئے کہ وہ ہر لحاظ سے صحت مند ہے اور صرف ایک خدشہ کو بنیاد بناکر ایسا کرنے سے معاشرتی بنیادوں کو جھٹکا لگا - صحت مند اذھان کے لئے بھی نئے مسائل نے جنم لیا اور سماجی بے چینی ہر طرف دیکھنے کو ملی اس سماجی بے چینی میں ملازمتوں سے محرومی کا بھی اھم کردار رہا ہے اور صورتحال اس حد تک بگڑی کہ انسان نے انسان سے نفرت کرنا شروع کردی جبکہ ذمہ داری ایک ایسے جرثومے کی تھی جس کو انسانی آنکھ نہیں دیکھ سکتی تھی اور اس صورتحال میں معاشرتی نظام اور اس سے وابستہ تصورات کو بھی نقصان پہنچا اور جمہوریت کے بنیادی تصورات شدید متاثر ہوئے اور پوری دنیا کے سیاسی حالات بھی تبدیلی کے مراحل سے گزرے جس کی بنیاد معاشیات تھی جس کو اس زور کا جھٹکا لگا کہ وہ زمین بوس ہوگئی - ترقی یافتہ ممالک میں صورتحال اس حد تک نہیں گئی جہاں لوگ معاشی حالات کے خراب ہوجانے پر خودکشیاں کرتے اور وہاں اگر خودکشیاں ہوئیں ہیں تو اس کی بنیاد ذھنی تناؤ بنا ہے جس کی لاتعداد وجوہات سامنے آچکی ہیں اور وہاں کی حکومتوں نے عام آدمی کو بھرپور سپورٹ مہیا کی جبکہ غریب ممالک اور پسماندگی کے شکار ممالک میں صورتحال اس حد تک بگڑی کہ معاشرے میں خودکشیاں اور اس کا تناسب بڑھا اور ایک حد تک ہی حکومت نے عوام کی اس صورتحال میں سپورٹ کی جو ممکن ہوسکتی تھی - پاکستان جیسے ملک نے بھی عوام الناس کو حالات کے پیش نظر مالی وسائل فراہم کئے جو ایک مذاق ہی کہلائے گا اور جس نے عوام میں مایوسی بھی پیدا کی - دوسری طرف عوام الناس میں بے چینی اس لئے بھی پیدا ہوئی کہ وہ ذھنی طور پر ان حالات کے لئے تیار نہیں تھے اور متوسط طبقہ جو امدادی رقم بھی نہیں لے سکتا تھا زیادہ مشکلات میں چلا گیا اور چونکہ متوسط طبقے میں تعلیمی خواندگی کا تناسب بھی زیادہ ہونے کی وجہ سے شعور بھی زیادہ ہے وہ ذھنی دباؤ کا شکار ہوگیا - اس طبقے کو بیروزگاری کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا اور وہ اپنے وسائل سے بھی محروم ہوچکا ہے جو اس نے بچت کی صورت میں اپنے پاس موجود رکھنے کی کوشش کی تھی صورت حال اس حد تک خراب ہوئی کہ لوگ قرضہ لیکر اپنا گزارا کررہے ہیں اور اس کے نتیجے میں ذھنی تناؤ کا شکار ہیں اور مستقبل کے اندیشے الگ ان کو گھیرے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے وہ مخصوص ذھنی حالت سے باہر نہیں آرہے ہیں اور آئندہ کیا ہوگا اس کے متعلق کوئی حتمی تعین موجود نہیں ہے جس نے صورتحال کو اس حد تک پہنچا دیا ہے جہاں ذھنی مسائل بڑھ چکے ہیں ، لوگوں کا معیار زندگی کرا ہے اور بچت کی وجہ سے یا مجبوراً وہ کمتر سطح پر آئے ہیں جس نہیں ان کے ذھنی تناؤ میں اضافہ کیا ہے اور اس کے نتائج ذھنی بیماریوں کی صورت میں سامنے آئیں گے - کمپیوٹر یا اسمارٹ فون کی اسکرین کو زیادہ وقت دیا جارہا ہے اور اس کے نتیجے میں اکتاہٹ اور ذھنی تھکن جنم لے رہی ہے جو آگے کے مراحل بھی طے کر سکتی ہے جہاں ذھنی مسائل موجود ہیں اور ماھرین کے مطابق اگر دو گھنٹے سے زیادہ اسکرین مسلسل دیکھی جائے تو ذھنی امراض جنم لیتے ہیں اور حالات کے پیش نظر وہ آن لائن مسائل حل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں لہٰذا اِس سے وابستہ دیگر جیزیں نئے مسائل سامنے لارہی ہیں اور بچوں کی اسکولنگ اور ورزش نے جہاں بچوں کو متاثر کیا ہے وہیں بڑے بھی محدود سرگرمیوں کی وجہ سے جسمانی قوت مدافعت کھورہے ہیں خصوصاً ورزش نہ کرنے والے افراد قوت مدافعت سے محروم ہورہے ہیں اور زیادہ عمر کے افراد کیلئے مسائل بڑھ گئے ہیں اور اس کے نتیجے میں وہ متاثر ہوسکتے ہیں - 

Sunday, May 17, 2020

ذہنی ‏صحت ‏اور ‏کورونا ‏وائرس ‏

دنیا ان دنوں کورونا وائرس کی وجہ سے متاثر ہے اور ترقی یافتہ ممالک کے شہری زیادہ پریشان اس لئے بھی ہیں کہ ان کو اپنی زندگیوں سے زیادہ پیار ہے کیوں کہ وہ زیادہ بہتر حالت میں زندگی گزارتے ہیں اور بنیادی نوعیت کے مسائل سے بھی دور ہیں مگر پچھلے دنوں امریکہ میں گاڑیوں کی طویل قطار مفت راشن کیلئے نظر آئی اور یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ اب مزید لوگ بےروزگار ہوں گے اور معیشت پر بوجھ پڑے گا یہ بیروزگاری ذھنی امراض کی طرف صورتحال کو لے جاسکتی ہے اور اس دوران بڑھتی شراب نوشی کے تناسب اور نشہ آور ادویات کی ریکارڈ فروخت سامنے آچکی ہے جو صورتحال کو مزید گمبھیر بناسکتی ہے ۔ جو لوگ مہلک وائرس کا شکار ہوچکے ہیں ان سے توہین آمیز سلوک برتا جارہا ہے اور ترقی پذیر ممالک میں صورتحال زیادہ خراب ہے جہاں کورونا وائرس کے مریض اپنا مرض چھپا رہےہیں تاکہ وہ اس بدنامی سے بچ سکیں جو ان کو ان حالات میں اچھوت بنا سکتی ہے اور جو ان سے ان کا اعتماد چھین سکتی ہے جو انہیں طبی عملے خصوصاً ڈاکٹروں پر ہے ۔ مریضوں سے امتیازی سلوک کرنے کی رپورٹس پوری دنیا سے موصول ہورہی ہیں اور ترقی یافتہ ممالک میں بھی ایسی صورتحال دیکھنے میں آچکی ہے ۔۔ کورونا وائرس کے سبب لاک ڈاؤن کا نفاذ حد درجے ضروری تھا جس نے انٹرنیٹ اور کمپیوٹر سے وابستگی بڑھا دی ہے اور پوری دنیا میں انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کو دیا جانے والا وقت بڑھ چکا ہے جو ذھنی امراض میں اضافہ کرسکتا ہے اور اس سے وابستہ امکانات بھی کئی گنا بڑھ چکے ہیں جو ذھنی دباؤ کو جنم دے رہے ہیں اور جو ایک ایسی صورتحال پیدا کرسکتا ہے جب مذہبی رسومات اور عبادات پر بھی پابندی موجود ہو تو ذھنی آسودگی کا حصول آج کا سب سے بڑا مسئلہ ہے خصوصاً بڑی آبادیوں کے حامل غریب ممالک میں صورتحال آئندہ آنے والے دنوں میں زیادہ گمبھیر ہوسکتی ہے جہاں طبی عملے پر بڑھتا دباؤ ان کو یکسر غیر فعال کرسکتا ہے اور ان کی حوصلہ شکنی بھی موجود ہے اور ان کے مطالبات نہیں مانے جارہے ہیں جن میں لاک ڈاؤن کو سخت کرنے کا مسلسل مطالبہ اہم تر ہے جس کو دہرایا جارہا ہے اور حکومتوں کیلئے یہ ممکن نہیں کہ وہ مزید لاک ڈاؤن کی سختی کو برقرار رکھیں ۔ لاک ڈاؤن میں نقل و حرکت محدود ہونے سے ابتداء میں خوشگواریت اور بعد ازاں بیزاری اور اکتاہٹ نے جنم لیا اور یہ ذہنی امراض کا سبب بھی بن سکتا ہے ۔ کسی بھی عالمی سطح کی وباء جو ہلاکتیں ہوچکی ہیں کورونا وائرس سب سے بڑھ کر ہے جس نے خوفزدہ کرنے کا کام بھی کیا ہے اور تفریح کے نام پر بھی میڈیا کورونا وائرس ہی دکھا رہا ہے کیوں کہ اس کی طلب اور تناسب موجود ہے جس نے انسان کو دوسرے انسان کو غور سے دیکھنے پر مجبور کردیا ہے 

What are the causes of skinny girls?

The number of thin girls in the society is increasing rapidly and an attempt will be made to understand its reasons. What are the reasons wh...