Showing posts with label TAZYANA. Show all posts
Showing posts with label TAZYANA. Show all posts

Friday, July 24, 2020

انصاف کا مہذّب تصور

دنیا اتنی مہذّب نہیں تھی جتنی آج محسوس کی جاسکتی ہے اور انسانی ارتقاء دراصل تہذیب کا سفر بھی اس جس نے انسان کو آج اس قابل بنایا ہے کہ وہ غلط ، ٹھیک کے درمیان فرق نہ صرف سمجھ سکے بلکہ سمجھا بھی سکے - انسان کا سفر غاروں سے شروع ہوا جہاں وہ کچا گوشت کھایا کرتا تھا اور پھر عورت کی مہربانی سے اتفاقاً آگ کی دریافت نے پکانا سکھایا ، انسان رفتہ رفتہ مہذّب بنا اور سمندر یا دریاؤں کے کنارے بستیاں بسائیں 

معاشرے کے ساتھ ضوابط طے کرنے کی ضرورت تھی اور قوانین بنائے گئے جس نے معاشرے اور انسان کو مزید مہذّب بنانے میں اھم کردار ادا کیا اور قوانین کے نفاذ سے متعلق مسائل بھی سامنے آئے جس پر قابو پانے کی ہر کوشش معاشرے کو مزید تہذیب یافتہ بنانے کی کوشش بھی تھی ۔

دنیا میں کہیں زیادہ بہتری آئی اور کہیں کم بہتری نظر آئی لیکن تہذیب کا سفر آگے بڑھا اور پھر جمہوریت کے تصور نے انسان کو برابری دلوانے میں کردار ادا کرنا شروع کیا اور قوانین میں انسان حقوق اھمیت اختیار کرگئے 

اور ایسے تصورات مضبوط ہوئے جو انسانی حقوق اور جمہوریت کی وجہ سے قوانین کو انسانی فلاح و بہبود کیلئے اِستعمال کرنے پر زور دیتے تھے اس دور کے اثرات دنیا کے کئی ممالک اور معاشروں میں دکھائی دیتے ہیں جہاں قوانین انصاف کا مہذّب تصور نہیں رکھتے اور انسانی معاشرے میں بے چینی کا باعث بنے ہوئے ہیں ۔ 
جن امور کو قابلِ غور سمجھنا چاہیے ان میں سزا کا تصور بھی ہے جس کو مہذّب معاشرے میں اس طرح لیا جاتا ہے کہ جب تک مجرم قرار نہیں دیا جائے سزا شروع نہیں ہوسکتی ہے ۔ لوگ برسوں جیل میں قید رہتے ہیں جو اذیت ہے جو وہ خود اور اس کے خاندان کے افراد جھیلنے پر مجبور ہیں اور ضمانت کو فرد اور معاشرتی حقوق کے تناظر میں قابلِ غور ہونا چاہئے اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو یقینی بنانے کی بھی اشد ضرورت ہے کہ کسی بھی طرح سے شخصی توہین نہ ہو اور گرفتاری بطورِ حق ظلم اور ہراسانی کیلئے کسی بھی طور پر استعمال نہیں کیا جائے اور مہذّب دنیا کی طرح دستور کے تحت انسانی احترام کو مدنظر رکھتے ہوئے قانونی کارروائی ادا ہو ۔ 

Sunday, June 28, 2020

کیا ‏گٹکا ‏,ماوہ ‏اور ‏مین ‏پوری ‏وغیرہ ‏چبانے ‏والے ‏افراد ‏کورونا ‏وائرس ‏پھیلا ‏سکتے ‏ہیں ‏? ‏

جی ہاں ! پان،گٹکا ، مین پوری ، ماوہ وغیرہ کا استعمال کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں معاون ہے اور اس کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوشش کے طور پر خلاف قانون ان اشیاء پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے جو عام طور پر باآسانی دستیاب ہیں اور ان کا استعمال بھی معمول کے مطابق جاری ہے - پان چبانے والے افراد نے گٹکا ، ماوہ، مین پوری کا استعمال اس لئے شروع کیا کہ یہ اشیاء پان کے مقابلے میں سستی ہیں اور غربت کے ماحول میں ان مضر صحت اشیاء کی طلب مسلسل بڑھتی چلی گئی اور ایک وقت ایسا آیا جب سندھ اسمبلی میں ان اشیاء پر بحث ہوئی اور ضرورت سمجھی گئی کہ ان کے استعمال کو روکنے کی غرض سے قانون سازی کی جائے اور اس کے بعد اس بحث کا نتیجہ قانون سازی کی صورت میں سامنے آیا اور ان اشیاء کو بنانے ، فروخت کرنے ،اور استعمال کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی - خلاف قانون گٹکا ، ماوہ اور مین پوری کے ساتھ ساتھ بچوں کے لئے بنائی جانے والی میٹھی چھالیہ بھی پابندی کی زد میں آئی کیوں نہ میٹھی چھالیہ سے آغاز کرنے والے بچے جلد ہی گٹکے اور ماوے کے عادی ہونے لگے اور جہاں سے بچے میٹھی چھالیہ خریدتے تھے وہ دکاندار ان کو ترغیب دیتا تھا کہ وہ اب ماوہ یا گٹکے کا استعمال شروع کردیں تاکہ وہ زیادہ کما سکے اور وہ مین پوری کو میٹھی چھالیہ کے متبادل کے طور پر پیش کرتا تھا اور یوں بچے تیزی سے متاثر ہوتے چلے گئے اور ایک وقت ایسا آیا جب وہ ان اشیاء کے بغیر زندہ رہنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے اور اس قدر عادی ہوئے کہ رات کو منھ میں گٹکا یا ماوہ رکھتے ہوئے سوتے تھے - پان چبانے والے بالغاں نے ابتداء میں ان اشیاء کو زیادہ اھمیت نہیں دی اور جب تقابلی جائزہ لیا تو یہ اشیاء سستی تھیں اور غربت اور ضرورت نے ملکر ان کو مجبور کیا کہ وہ اب ان اشیاء کا استعمال کریں جو باظاہر ایک جیسی ہیں لیکن ان میں فرق موجود تھا اور یہ فرق اس قدر مہلک نتائج کا حامل تھا کہ ان کی مضر صحت ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی کیلئے خطرہ بننے لگا اور جب نتائج سامنے آئے تو چند افراد نے دوبارہ سے پان کھانا شروع کردیا لیکن بڑی تعداد اسی انداز سے مین پوری ، گٹکا اور ماوہ استعمال کرتی رہی اور کچھ افراد نے گٹکا اور ماوہ خود ہی تیار کرنا شروع کردیا تاکہ کم قیمت میں طلب پوری کی جاسکے - یہ افراد مجبوراً ایسا کررہے تھے کیوں کہ وہ چبانے کی عادت کا شکار ہوچکے تھے جو ان کو بچپن سے ہی اور جب انہوں نے میٹھی چھالیہ چبانے سے اپنا چبانے کا سفر شروع کیا تھا - چبانے کی یہ عادت وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتی گئی اور جو لوگ چبانے کی عادات کے حامل ہیں وہ کچھ نہ کچھ ضرور چبائیں گے اور چونکہ وہ نکوٹین کے عادی بھی ہوچکے ہیں لہٰذا گٹکا ،ماوہ،مین پوری یا پان ہی ان کی ضرورت کو پورا کرسکتے ہیں - کمرشل سطح پر جو گٹکا ،ماوہ یا مین پوری تیار کی جارہی ہے ان میں کیمیائی اجزاء بھی ملائے جاتے ہیں جو عادت کو مزید پختہ کرنے کا کام کرتے ہیں اس کے علاوہ ان اشیاء میں انتہائی تیز خوشبو کا بھی استعمال ہورہا ہے جو مصنوعی ہوتی ہے اور اردگرد موجود لوگوں کو باور کراتی ہے کہ ان کے اردگرد کہیں گٹکا یا ماوہ چبایا جارہا ہے اور اگر کسی فرد کو کورونا وائرس انفیکشن ہوچکا ہو تو ایسا فرد اپنے اردگرد موجود تمام افراد تک اس خوشبو یا بدبو کی صورت میں کورونا وائرس منتقل کرسکتا ہے اور اگر وہ کہیں پچکاری کرے گا تو بھی اردگرد کا ماحول تیزی سے متاثر ہوگا - صنعتوں کے لئے ایس او پیز جاری کئے گئے ہیں جن کی خلاف ورزی سامنے آرہی ہے اور ان خلاف قانون اشیاء کا استعمال صنعتی ورکرز میں معمول کے مطابق ہورہا ہے بلکہ اضافہ ہورہا ہے اور صنعتی مزدوروں میں ان خلاف قانون اشیاء کا استعمال اس لئے بڑھ رہا ہے کہ ان اشیاء میں تیاری کے دوران ایسا کیمیائی اجزاء شامل کئے جاتے ہیں جو انسانی جسم میں مستعدی لاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ صنعتی مزدوروں میں اس کا استعمال بڑھ رہا ہے اور ان مزدوروں میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی گٹکا ،ماوہ اور مین پوری چباتی نظر آتی ہیں اور ایسا ماحول بنایا جارہا ہے جس میں صنعتی مزدور تیزی سے عادی ہوتے جارہے ہیں - آج کے ماحول میں حساسیت بڑھ چکی ہے اور ہر شخص کوئی نہ کوئی نشہ کرتا دکھائی دیتا ہے اور جو بظاھر کوئی نشہ کرتے ہیں وہ ادوایات کا استعمال کرتے ہیں اور صنعتی کارکنوں کی قوت خرید کم ہونے کے سبب ایسے نشے مقبول ہوجاتے ہیں جو ان کو پھرتی بھی دیں اور ان کی طلب بھی پوری ہو - یہ خلاف قانون اشیاء اس لئے بھی مقبول ہیں کہ اس کے خلاف موثر قانونی کارروائی ممکن نہیں اور جب عام شخص خود گھر پر اپنے استعمال کے لئے اس کو تیار کرنا شروع کردے گا تو اس کو کیسے روکا جاسکے گا اور صرف اور صرف شعور کی بیداری ان مضرِ صحت اشیاء کے لئے اھمیت رکھتی ہے جو اثرانداز ہوسکتی ہے اور ماحول کو بھی بہتر بنایا جاسکتا ہے - گٹکے اور ماوے میں باریک پسا ہوا شیشہ استعمال کیا جاتا ہے جو منہ کے اندرونی جلد میں بہت ہلکے ہلکے کٹ لگاتا ہے اور تیزی سے نکوٹین خون میں شامل ہوتی ہے اور اس کا حد سے زیادہ عادی فرد کم خوراک ہوجاتا ہے اور اس کو بھوک کا احساس نہیں ہوتا اور صرف نشے کی طلب اس کو بے چین کرتی رہتی ہے 

Friday, June 26, 2020

جمہوریت ‏اور ‏عام ‏آدمی ‏

انسانی تاریخ میں ریاست کے قیام کو معاشرتی ارتقاء میں ایک سنگِ میل قرار دیا جاتا ہے - ریاست کے بننے سے انسانی مشکلات میں واضح کمی آئی اور جدید معاشرے کے لئے ایک جدوجہد کا آغاز ہوا - ابتداء میں روحانی پیشواؤں یا قبائلی سردار طاقتور سمجھے جاتے تھے اور یہ افراد ہی ملکر حکومت کی تشکیل کیا کرتے تھے - یہ افراد زمینوں کے مالک بھی ہوتے تھے اور اپنی طاقت سے مذید طاقت حاصل کرتے تھے اور ایسا ماحول موجود تھا جس میں عام آدمی کا کردار اطاعت سے زیادہ نہیں تھا - جنگوں کے نتیجے میں ریاستوں کی ٹوٹ پھوٹ ہوتی رہتی تھی اور نئی نئی ریاستیں وجود میں آتی رہتی تھیں - حکومت کا معیار طاقت تصور کیا گیا اور صدیوں تک دنیا طاقت کے حصار میں قید نظر آتی ہے - طاقتور کے الفاظ قانون کا درجہ رکھتے تھے اور عام افراد محکوم تھے جن کی کوئی اھمیت موجود نہیں تھی ان کی مرضی و منشاء کی کوئی اھمیت سرے سے ہی نہیں تھی جبکہ یہ تعداد میں بہت زیادہ تھے اور حکمرانوں کا جہاں بیرونی حملوں کے خدشات پریشان کن بنتے تھے اور اس ضمن میں وہ اکثر ضروری نوعیت کے اقدامات بھی اٹھایا کرتے تھے وہیں اس غالب اکثریت کے لئے بھی ایسے اقدامات کئے جاتے تھے جس سے ان کو قابو میں رکھا جائے اور یہ آسان نہیں ہوتا تھا اور ان اقدامات کے نتیجے میں مظالم جنم لیتے تھے اور ہمیشہ قانون طاقت ور کا ساتھ دیتا اور ریاستی ڈھانچے کو تقویت بھی فراہم کرتا تھا - ریاست کی ترقی کا سفر جاری رہا اور باقاعدہ بادشاہت نے ریاستی خدوخال میں تبدیلی پیدا کی - بادشاہت طاقتور سرداروں اور روحانی پیشواؤں کو خوش رکھنے اور ان کو اپنے ساتھ رکھنے کی ترغیب میں نظر آتی کیوں کہ اس سے بادشاہت مضبوط ہوتی تھی - اعلیٰ فوجی افسران کی بھی اھمیت تھی اور یہ سردار بھی ہوتے تھے اور مجموعی طور پر بادشاہ انہی لوگوں میں سے زیادہ طاقت ور فرد ہوتا تھا اور زیادہ طاقت کو حکمرانی کے جواز کے طور پر پیش کیا جاتا تھا اور جو اطاعت سے انکار کرتے تھے ان سے جنگ کی جاتی تھی اور فاتح حکمرانی کا حق استعمال کرتا اور اس کو جواز ثابت کرتا تھا - عام افراد کیلئے اطاعت سے زیادہ کچھ نہ تھا اور جو اطاعت سے انکار کرتے تھے ان کے لئے سخت سزائیں اور قیدخانے موجود تھے جہاں سے وہ اس وقت نکالے جاتے تھے جب ان کی موت واقع ہوجاتی تھی اور آج بھی معاشرے میں اس کا عکس موجود ہے اور طاقتور طبقے کی یہ خواہش موجود ہے کہ وہ اپنی اجارہ داری کیلئے مظلوم عوام پر طاقت کا استعمال کریں - ریاست کی ابتداء کے ساتھ ہی ایسے افراد بھی پیدا ہوئے جو شعور میں دیگر افراد سے بڑھ کر تھے اور جن کو دانشور کہا گیا ان کی ایک بڑی تعداد ریاست سے اختلاف رائے کی وجہ سے ہلاک کردی گئی - ان ہی لوگوں میں سے بعض نے شاعری کی اور ادب بھی تخلیق کیا اور جن لوگوں نے ریاست کے بارے میں سوچا انہوں نے زیادہ بہتر مقام حاصل کیا اور وہ آج تاریخ کا ایک اھم حصہ ہیں - ریاستی سطح پر مختلف تجربات کئے گئے اور اس میں بادشاہ کی مرضی کا بھی عمل دخل رہا اور کچھ ایسے تجربات بھی ہوئے جو حکمرانوں کی مرضی کے خلاف تھے اور ان ہی سیاسی نوعیت کے تجربات نے تاریخ رقم کی اور جو سیاسی افکار و نظریات کے تحت عام فرد کو محور بنا دیا کئے گئے - عمومی طور پر یہ تجربات انتہائی چھوٹی ریاستوں یا شہروں میں کئے گئے اور بادشاہت کو یہ باور کرایا گیا کہ ان سے ان کی حکمرانی کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور اس کے نتائج ایسے آئیں گے جس سے عوام الناس بہتر انداز میں قابو میں رہیں گے اور یوں جمہوریت کی ابتدائی تجربات ظہور پذیر ہوئے اور ابتدائی طور پر نوابوں اور رؤسا کیلئے جمہوریت لائی گئی جو حکومت میں حصہ بنانے کے لئے ناگزیر ضرورت تھے اور ان پر مشتمل پارلیمانی نظام کا آغاز بھی ہوا جس میں وقت کے ساتھ ساتھ عوام بھی داخل ہوئے اور انہوں نے بھی حکومت میں اپنا حصہ طلب کیا اور ابتدائی تاریخ کا مطالعہ یہ ثابت کرنا ہے کہ عوام کو حکومت میں حصہ اور حق رائے دہی ایک رعایت سمجھ کر دیا گیا اور آج ریاست کے مالک ہی عوام ہیں - یوں محدود سطح سے جمہوریت کا سفر شروع ہوا اور عوام الناس تعداد میں زیادہ تھے لہٰذا وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ سب کچھ ان کے حق میں ہوتا چلا گیا اور جمہوریت کی ماں برطانیہ میں دارلعوام طاقتور ہوا جبکہ اس سے پہلے دارلعمراء سب کچھ تھا اور تمام انسانوں فیصلے وہیں سے کئے جاتے تھے - جمہوریت کیلئے جو جدوجہد کی گئی اس کی ایک تاریخ موجود ہے اور وہ تاریخ رنگین بھی ہے اس میں انسانوں کا لہو شامل ہے اور جب جمہوریت عام آدمی کا ذاتی معاملہ بنی تو تیزی سے تبدیلیاں آئیں اور صنعتی دور میں معاشرے کی ضرورت ہی جمہوریت تھی جس کے بغیر معاشرہ آگے نہیں بڑھ سکتا تھا اور اختلاف رائے نے ایک نیا ماحول تشکیل دیکر جمہوریت کو مضبوط کیا اور بادشاہت ماضی کا ایک ایسا قصہ ہے جس میں انسان کو اذیت کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آتا ہے اور ماضی کی بوسیدگی آج تحقیق کی حد تک زندہ ہے 

کے ‏الیکٹرک ‏کی ‏جانب ‏سے ‏کی ‏جانے ‏والی ‏لوڈ ‏شیڈنگ ‏کے ‏بنیادی ‏اسباب ‏و ‏اس ‏سے ‏وابستہ ‏مسائل ‏

کراچی میں کے الیکٹرک کی طرف سے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے جس کے نتیجے میں کراچی میں لاتعداد مسائل پیدا ہوچکے ہیں اور ان میں سب سے اھم مسئلہ پانی کی عدم دستیابی کی صورت میں سامنے آیا ہے جو لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ہی ابھرا ہے کیوں کہ بجلی نہ ہونے کی صورت میں لائینوں میں موجود پانی ضائع ہورہا ہے اور اس میں جب پانی کا پریشر نہیں ہوتا تو سیوریج کا پانی داخل ہوکر اس کو آلودہ اور زھریلا کررہا ہے جس کی اھم وجہ پانی کی لائینوں کی بوسیدگی قرار دی جاسکتی ہے اور صورتحال اگر برقرار رہتی ہے تو پیٹ کے امراض بڑھ سکتے ہیں ،  کے الیکٹرک کی طرف سے کی جانے والی لوڈشیڈنگ سے گھروں میں موجود کورونا وائرس کے شکار مریض جو قرنطینہ میں ہیں شدید مشکلات کا سامنا کررہے ہیں جو پہلے سے ہی تکلیفیں برداشت کررہے ہیں اور ایسے حالات میں ہونے والی لوڈشیڈنگ ان کی قوت برداشت سے باہر ہے جس کے نتیجے میں درجنوں مریضوں کا انتقال ہوچکا ہے اس صورتحال پر نیپرا نے نوٹس بھی لیا ہے لیکن عملی طور پر کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی ہے - شدید گرمی موجود ہے جس نے شہریوں کا برا حال کررکھا ہے ان حالات میں کی جانے والی لوڈشیڈنگ نے مسائل کی نوعیت کو شدید کردیا ہے اور خصوصاً جبکہ مارکیٹیں بھی کم وقت کے لئے کھولی جارہی ہیں اور بجلی کی واضح بچت ہورہی ہو تو کے الیکٹرک کو اس ظلم کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے اور جو موقف کے الیکٹرک کی طرف سے سامنے آیا ہے وہ مضحکہ خیز ہے کیوں کہ حکومت اس کی تردید کررہی ہے اور کے الیکٹرک نے سارا ملبہ حکومت پر ڈال کر خود کو بچانے کی کوشش کی ہے - کے الیکٹرک کا موقف حقائق پر مبنی نہیں ہے اور یہ موقف غیر حقیقی ہے جس کا مذاق اڑایا جارہا ہے ، صوبہ سندھ کا دارالحکومت کراچی کے لئے سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے اور لوڈشیڈنگ کا ایک حل یہ بھی ہے کہ صوبہ سندھ میں ونڈ پاور پلانٹس لگائے جائیں جس کے لئے صوبہ سندھ میں قدرتی طور پر ماحول موجود ہے اور یہ ونڈ پاور پلانٹس جہاں انتہائی سستے ہیں وہیں اس سے پیدا شدہ بجلی پر کوئی خاص لاگت بھی نہیں آتی ہے جبکہ دوسرے صوبوں میں یہ تجربہ کامیابی سے تکميل نہیں پاسکتا ہے کیونکہ وہاں قدرتی طور پر ہوا طاقتور نہیں ہے اور یہ ونڈ پلانٹس کراچی سمیت پورے صوبے کی بجلی کی ضرورت بآسانی پوری کرسکتے ہیں ، کے الیکٹرک ایک خودمختار ادارہ ہے اور وہ کسی ہدایت کا اپنے آپ کو پابند خیال نہیں کرتا حتیٰ ک وہ سرکاری سطح پر دی جانے والی ہدایات کو اکثر نظر انداز کرتا رہتا ہے - کے الیکٹرک تین تا بارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کررہا ہے جو کراچی کے عوام کو تکلیف پہنچانے کی ایک کوشش ہے اور اس کے عوامل سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کیوں ایسا کررہا ہے اور کس کے اشاروں پر کراچی کے عوام کو تکلیف دہ حالت میں رکھنے کی سازش کی جارہی ہے 

Thursday, June 25, 2020

سیاسی ‏خیالات ‏اور ‏ملازمتوں ‏سے ‏برطرفی ‏


پاکستان میں ایک مباحثہ جاری ہے جو ماھرین تعلیم کو ان کے سیاسی افکار و خیالات کی وجہ سے ملازمتوں سے برطرف کرنے سے متعلق ہے اور یہ مباحثہ اس لحاظ سے بھی اھمیت کا حامل ہے کہ عملی طور پر طلباء کو سیاسی خیالات کے ذریعے بھڑکانے پر متعدد ماھرین تعلیم اپنے اپنے تعلیمی اداروں سے فارغ بھی کئے جاچکے ہیں - ماھرین تعلیم سمیت تمام تر شعبہ جاتی ماھرین کے لئے آذادی و اختیار کی نئی صورت حال نے جنم لیا ہے اور مجموعی طور پر جو تاثر ابھر رہا ہے وہ غیر جمہوری ہے اور معاشرے کے لئے نقصان دہ بھی ہے - ملک کا دستور و قانون ہر شہری کو اس بات کی آذادی دیتا ہے کہ وہ اپنا سیاسی نکتہ نظر رکھ سکتا ہے اور اس کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہوسکتا ہے حتیٰ کہ اپنے سیاسی افکار و نظریات کو مزید فروغ دینے کے لئے وہ اپنی خود کی سیاسی جماعت بھی بنا سکتا ہے اور ایسے حالات میں غیر جمہوری طرز عمل کا معاشرے میں بڑھنا تشویش ناک ہے اور یہ تاثر یا طرز عمل معاشرے کو بنجر بھی بنا سکتا ہے - طالبعلم اپنے اساتذہ سے متاثر ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ صدیوں سے چل رہا ہے اور طلباء اگر متاثر ہوتے ہیں تو وہ اساتذہ کے خیالات و افکار ہی ہوتے ہیں اور اگر یہ ریاست مخالف نہ ہوں تو ان پر قدغنیں لگا کر ان کو ان کی ملازمتوں سے نکال باہر کرنا ایک افسوس ناک امر ہے جو قابلیت کے حامل اساتذہ کو ان کے شاگردوں سے دور کرنے کے علاوہ ملک کو قابل اساتذہ سے محروم کرسکتا ہے اور وہ ملک چھوڑ کر کسی ترقی یافتہ ملک کا رجوع کرسکتے ہیں - اس وقت جو صورت حال ہے اس میں باالخصوص ماھرین تعلیم سے جو معاہدات کئے جارہے ہیں وہ ایسی شرائط کے حامل ہوتے ہیں جن کو توہین آمیز بھی کہا جاسکتا ہے - معاشرے میں جب تک ہر کسی کو اس کا جائز مقام نہیں دیا جائے گا معاشرہ صحت مند نہیں کہلا سکتا ہے اور ایک صحت مند معاشرے کی معاشرے کی بنیاد رکھنے کے لئے آج کے مخصوص حالات میں ہمیں زیادہ سنجیدگی سے ان امور کو سمجھنا ہوگا جن کی وجہ سے معاشرتی بگاڑ جنم لے سکتا ہے یا معاشرہ بیمار ہوسکتا ہے - جمہوریت اور اس کے بنیادی اصول و ضابطے ملکی قانون اور دستور سے نتھی ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو اس لئے سپورٹ کرتے ہیں کہ ایک صحت مند توازن ریاست میں پیدا ہو یا اس کو پیدا کیا جاسکے اور موجودہ صورت حال میں ماھرین تعلیم سمیت دیگر ماھرین جو معاشرے کے لئے دماغ کی حیثیت رکھتے ہیں ان پر بڑھتا دباؤ افسوس ناک ہی کہا جاسکتا ہے جو جمہوری طرز فکر کی نفی بھی ہے 

Wednesday, June 24, 2020

کورونا ‏سے ‏پیدا ‏شدہ ‏تبدیلیاں ‏

آج کی دنیا ایک بدلی ہوئی دنیا ہے اور نوول کورونا وائرس نے دنیا کا مزاج بدل کر رکھ دیا ہے اور بنیادی طور جو تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں ان کا انتہائی مختصر جائزہ اس آرٹیکل میں پیش کیا جائے گا - ترقی یافتہ ممالک جو مالی وسائل رکھتے ہیں وہ بھی شدید متاثر ہوئے ہیں اور ترقی پذیر غریب ممالک کی معیشت بیٹھ گئی ہے جس کو ایک طویل عرصہ چاہیے لہٰذا اِس کا ایک ہی حل ہے کہ ان کے قرضے اور ان پر عائد سود ختم ہو - پوری دنیا میں عوام پریشان اور حکومتیں حیران ہیں جو دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے اس کے ساتھ ساتھ صحت سے متعلق سماجی شعور میں اضافہ ہوا ہے اور اب آئندہ کا انسان بہتر تر شعور کے ساتھ زندہ رہے گا - بھوک ،غربت ،پسماندگی اور معاشرتی گراوٹ بڑھتی جائے گی اور ایک نیا ماحول سامنے آسکتا ہے جہاں روپے پیسے کی اھمیت مزید بڑھ سکتی ہے اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں ،طبی عملے اور ہسپتالوں کی تعداد میں اضافہ سامنے آئے گا - سیاسی افکار نیا رخ لے سکتے ہیں اور اچھی حکمرانی اور جمہوریت کے سنہرے اصول کہیں غائب ہوسکتے ہیں اور اس کی جگہ مطلق العنانیت کا فروغ ہوگا جس کو روکنے کی جدوجہد ابھی سے شروع کرنے کی ضرورت ہے - پہلے سے ہی موجود ڈیجیٹل کلچر مزید فروغ حاصل کرے گا اور ایک سیاسی ضرورت سمجھتے ہوئے بھی اس کو مزید فروغ دینے کی کوشش کی جائے گی - کورونا وائرس مکمل طور پر دنیا سے ختم نہیں ہوگا اور ویکسین آنے کے باوجود یہ موجود رہے گا اور اس کے ساتھ ہمیں ایچ آئی وی جیسا سلوک اپنانا ہوگا - لاک ڈاؤن ایک سیاسی ضرورت بھی تھی تاکہ غریب ممالک اپنے قرضے اور سود معاف کراسکیں اور اس نتیجہ بھیانک نکلا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے بھوک اور غربت نے لوگوں سے ان کی زندگیاں چھین لیں اور اس کی ایک مثال بھارت ہے جہاں اموات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور سرکاری طور پر اعدادوشمار مشکوک ہیں وہاں کم شرح اموات دکھائی جارہی ہیں تاکہ دنیا کی توجہ بھارت پر مرکوز نہ ہو - ترقی یافتہ ممالک میں بلعموم اور ترقی پذیر ممالک میں باالخصوص صفائی و ستھرائی کی صورتحال متاثر ہوئی ہے اور اس کا معیار بھی گرا ہے جو تشویش ناک ہے اور مزید اس میں گراوٹ آسکتی ہے - آج کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک الیکٹرانک تعلیمی نصاب تیار ہوسکتا ہے جو آئندہ بھی اس طرح کے حالات میں کام آسکتا ہے اور طلباء و طالبات اس سے مستفید ہوپائیں گے اور مستقبل کی اس ضرورت کی طرف بھرپور توجہ دی جاسکتی ہے جو اب ایک اھم تقاضا بھی ہے 

Saturday, June 20, 2020

ماحولیاتی ‏تحفظ ‏کے ‏لئے ‏ضروری ‏اقدامات ‏

اس مختصر رپورٹ میں یہ جائزہ لیا جائے گا کہ ماحولیاتی تحفظ کے لئے کس نوعیت کے اور کس قسم کے اقدامات ضروری ہیں جو آج کے حالات میں درپیش چیلنجز کی حیثیت رکھتے ہیں اور آج کے گلوبل ویلیج میں ذاتی حیثیت سے کیا کچھ کیا جاسکتا ہے اور اجتماعی سطح سے کیا کچھ کرنا ممکن ہے اور اگر ہم پاکستان کا جائزہ لیں تو یہاں کی صورتحال کے تناظر میں کچھ مثبت دریافتیں سامنے آئی ہیں جو ماحولیاتی آلودگی کم کرنے میں معاون ثابت ہونگی اور اس سے ماحولیاتی تحفظ کو بھی یقینی بنایا جاسکے گا موجودہ بین الاقوامی صورتحال میں کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا کے حالات تبدیل ہوچکے ہیں اور درپیش مسائل اور ان کی نوعیت میں بھی تبدیلی آئی ہے اور ان میں ماحولیاتی مسائل جیسے کہ آلودگی اور ماحولیاتی تحفظ کیلئے ان سے نمٹنا اہم تر بن چکا ہے جس کے لئے درکار سنجیدگی بھی ایک مسئلہ ہے جو سامنے آچکا ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کا امیج ماحولیاتی تحفظ کے لحاظ سے بھی بہتر بنایا جائے اور ایسے اقدامات کے لئے راستہ ہموار کیا جائے جن کے نتائج حوصلہ افزا ہیں اور ان میں ایک پاکستان کی کراچی یونیورسٹی کے سائنس دانوں کی طرف سے مصنوعی پلاسٹک کی دریافت اہم ترین ہے جو ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنائے گی کیوں کہ ماحولیاتی آلودگی میں سب سے بڑا حصہ پلاسٹک کا ہے جو تلف نہیں ہوتا اور کسی نہ کسی شکل میں موجود رہتا ہے جس کے مکمل خاتمے کی سمت راہ ہموار ہوئی ہے آج کے حالات میں پوری دنیا میں کچرے سے متعلق مسائل نے گمبھیر صورتحال اختیار کرلی ہے جس کا ایک سبب کورونا وائرس کا پھیلاؤ بھی ہے جس نے عام طور سے معمولات زندگی کو متاثر کیا ہے اور کچرہ مسلسل مسئلہ بن رہا ہے اور آگے کے حالات میں اس کی نوعیت اور شدت بڑھتی نظر آرہی ہے ان حالات میں کراچی یونیورسٹی سے سائنس دانوں جو کہ ماحولیات سے متعلق ہیں ایک ایسی دریافت سامنے لائے ہیں جو غیر معمولی ہے کیوں کہ تیار کردہ پلاسٹک قدرتی انداز میں تلف کیا جاسکتا ہے اور ماحول دوست ہے حتیٰ کہ اگر اس پلاسٹک کو کھایا جائے تو وہ انسانی صحت کیلئے کسی بھی لحاظ سے مضر نہیں ہے اور اس کے کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ہمیں ایسے پلاسٹک اور اس کے استعمال کو اھمیت دینی ہوگی جو ماحولیاتی تحفظ کے لئے بھی ضروری ہے اور اسے ترقی کی سمت ایک اھم قدم سمجھنا ہوگا ماحولیاتی تحفظ انسانی زندگی کے لئے ضروری ہے اور جہاں بھی دنیا میں بہتر انداز میں ماحولیاتی تحفظ کے لئے اقدمات اٹھائے گئے وہاں زندگی اور عمر میں اضافہ ہوا اور عام شہریوں کی شرح اوسطاً بڑھی جبکہ دنیا میں جہاں کہیں اس ضمن میں بھرپور اور مناسب اقدامات نہیں کئے گئے وہاں انسانی زندگی محدود ہوئی اور شرح اموات میں اضافہ دیکھنے کو ملا خصوصاً غریب ممالک یا ترقی پذیر ممالک میں صورتحال زیادہ خراب ہے اور شور کی آلودگی ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے جو ہمیں ترقی یافتہ ممالک میں نظر نہیں آتی اور عام طور سے شہروں میں یہ مسئلہ ہے جہاں ہر چیز لاؤڈ اسپیکر پر فروخت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور پاکستان کا شمار ایسے ہی ممالک میں ہوتا ہے جہاں بڑے شہروں کا ایک بڑا مسئلہ شور کی آلودگی بھی ہے جس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے کیونکہ لاؤڈ اسپیکر استعمال کرنے سے بہتر فروخت ہوتی ہے اور ہر کوئی ایسا ہی کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ زیادہ کما سکے اور بڑے شہروں کے پسماندہ علاقے شدید متاثر ہیں جہاں کوئی آرام سے نہیں سو سکتا ہے اور مسلسل ذھنی دباؤ میں ہے جس کے خلاف موثر قانونی مہم وقت کی ضرورت ہے تاکہ شہری کم از کم سکون سے سو سکیں جو کورونا وائرس کی وجہ سے پہلے سے ہی متاثر ہیں اور یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ خلاف قانون لاؤڈ اسپیکر کا استعمال روکا جاسکے جس کے بارے میں یہ تاثر موجود ہے کہ یہ عین قانون کے مطابق ہے 

Friday, May 15, 2020

کورونا ‏وائرس ‏۔ ‏سیاسی ‏پہلو ‏

دنیا بھر میں کورونا وائرس سے پھیلے خوف,اندیشے اور موجود صورتحال کے کئی پہلو موجود ہیں جن اس کا سیاسی پہلو بھی اھمیت کا حامل ہے اور اس تحریر میں اس پر روشنی ڈالی جائے گی مندرجہ ذیل سیاسی پہلو قابلِ غور ہیں ۔ جمہوریت نے جو سفر صدیوں میں طے کیا تھا اس کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ اور تدارک کیلئے کی جانے والی تدابیر جیسے کہ لاک ڈاؤن اور سماجی دوری نے نقصان پہنچایا ہے اور بنیادی جمہوری سیاسی تصورات میں دڑار پیدا ہوئی اس کے علاوہ چین پر سیاسی طور پر الزامات لگائے گئے کہ اس نے دانستہ طور پر وائرس پھیلایا ہے جس کی سیاسی بنیادوں پر تنقید اور نفی سامنے آئی اس موقف کے حق میں دلائل بھی سامنے لائے گئے اور پرانی ویڈیوز اور اس کے مندرجات سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ۔ بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو جواز بنا کر سیاسی بنیادوں پر اس کا فائدہ اٹھا لیا گیا اور کشمیری عوام کو صحت کی سہولیات تک رسائی کو روکا گیا اور ان کے بنیادی حقوق متاثر ہوئے ۔ لاک ڈاؤن سویڈن کے علاوہ تقریباً پوری دنیا میں لگایا گیا اور اس سے غربت میں اضافہ ہوا اور خصوصاً ترقی پذیر غریب ممالک میں سماجی اور سیاسی بے چینی نے جنم لیا جو ان ممالک میں سیاسی تبدیلی بھی پیدا کر سکتی ہے اور ان ممالک کی معیشت نے جو نقصان برداشت کیا اس کے سیاسی نتائج وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آئیں گے ۔ عالمی مالیاتی اداروں نے صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کیا یہ اضافہ سیاسی پہلو رکھتا ہے اور پھر خصوصاً ایسے وقت میں کچھ ممالک کو آئندہ مالیاتی سال کے لئے ہدایات دی گئيں جن میں پاکستان شامل ہے جو مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے ۔ دنیا کے سامنے ایک نیا تجربہ آیا اور اس سے صرف وہ ممالک ہی بچ پائیں گے جو بہتر معیشت کے ساتھ موجود ہیں اور زیادہ آبادیوں والے ممالک اب زیادہ متاثر ہونگے جہاں کمزور معیشت اور صحت کی سہولیات کی کمی کی وجہ سے بروقت ٹیسٹ نہیں کئے گئے اور پیدا شدہ صورتحال سیاسی بحران کی طرف جاسکتی ہے 

What are the causes of skinny girls?

The number of thin girls in the society is increasing rapidly and an attempt will be made to understand its reasons. What are the reasons wh...