Showing posts with label نسلی ‏تعصّب ‏. Show all posts
Showing posts with label نسلی ‏تعصّب ‏. Show all posts

Friday, June 19, 2020

نسلی ‏تعصّب ‏اور ‏اس ‏کی ‏بنیادیں ‏

نسلی تعصّب کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی باقاعدہ ابتدائی معاشرے کی ہے طاقتور قبیلوں نے کمزور طبقات اور قبیلوں کو اپنا مطیع بنا کر باقاعدہ شہروں کی بنیاد رکھی جو ابتداء میں خاصے چھوٹے تھے یہاں باقاعدہ حکومت کی بنیاد بھی رکھی گئی اور قوانین بھی متعارف کرائے گئے جو طاقتور طبقات اور حکمرانوں کے رشتہ داروں کے لئے باسہولت تھے تو وہیں وہ کمزور طبقات اور زیرِ دست افراد کے لئے مشکلات پیدا کرنے کا سبب بھی بنے اور ان قوانین نے ابتدائی ادوارِ میں نسلی تعصّب کو مضبوط بھی کیا یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قوانین نے ہی جہاں طاقتور طبقے کو مزید تقویت دی وہیں کمزوروں اور غلاموں کے بارے میں حقیر ہونے کا احساس بھی پیدا کیا جس کو ہم شادیوں سے متعلق قوانین سے سمجھ سکتے ہیں جس کے مطابق غلام طبقہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ وہ کسی حکمران طبقے یا نسلی برتری رکھنے والے خاندانوں میں شادی کر سکتے ہیں اس فرق کو اس لئے رکھا گیا تھا کہ نسلی برتری کو برقرار رکھا جائے اور اس کو مضبوط بھی کیا جائے اس کے علاوہ ایک تاثر تاریخ سے یہ بھی ملتا ہے کہ تعداد میں زیادہ افراد تعداد میں کم لوگوں سے حقیر سمجھنا شروع کردیتے ہیں معاشرے میں طاقت کو مرکزی حیثیت حاصل رہی اور طاقتور ہونے کا احساس مخصوص ذھنیت پیدا کرتا چلا گیا نسلی تعصّب کو انسان کی فطرت نہیں کہا جاسکتا ہے کیوں کہ فطرت پر موجود انسان سادہ ہوتا ہے اور وہ نفرت سے نفرت کرتا ہے جو دراصل محبت ہی کی سادگی ہے اور نسلی تعصّب اس تصور کے برعکس انسانی تاریخ میں موجود بھی رھا اور اس کو مخصوص حالات میں فروغ بھی ملا یہ ایک ذہنیت ہے اور احساس برتری سے بحث کرتی ہے یہ احساس صدیوں اور نسلوں میں سفر کرتا رہا اور اپنی اصل روح میں یہ احساس کمتری ہے جو آج کے حالات میں قابلِ نفرت بن  چکا ہے جو انسانیت کی توہین قرار دیا جاسکتا ہے جو انسان سے ہی منسوب ہے اور اس کا تسلسل انسانی تاریخ کا ایک حصہ ہے انسانی تاریخ ظلم و ستم کی ایک داستان بھی ہے جس میں مختلف ادوار میں ظلم و ستم اور نسلی تعصّب کے خلاف جدوجہد ہوتی رہی ہے اور بالاآخر وہ کامیاب ہوئی اور انسانیت فتح مند قرار پائی اس جدوجہد کو سمجھنے کے لئے ہمیں جمہوریت کو سمجھنا ہوگا جس نے نسلی تعصّب کے خلاف اپنا اہم کردار ادا کیا اور نسلی تعصّب کے برخلاف موجود شدت پیدا کی اس کو جمہوریت کا ایک تحفہ بھی کہا جاسکتا ہے جو اس نے ایک مسلسل عمل کے نتیجے میں دیا ہے جس نے معاشرے میں تبدیلی بھی پیدا کی اور چونکہ معاشرے میں رویے بھی نہ صرف تبدیلی کے مراحل سے گزرتے ہیں بلکہ یہ روپے تبدیلی پیدا بھی کرتے ہیں اور آج کل کے حالات میں چونکہ دنیا کے اکثر ممالک میں جمہوریت موجود ہے اور کہیں مظبوط اور کہیں کمزور ہے لیکن وہ ایک مخصوص طرزِعمل اور طرزِ فکر کو ابھارنے میں کامیاب رہی ہے جو نسلی تعصّب کے خلاف ہے اور برابری پر یقین پیدا کرتی ہے اور آج کی جدید دنیا میں نسلی برتری کا احساس اب قابلِ نفرت بھی بن چکا ہے جو ذھنی پسماندگی کے ساتھ ساتھ جہالت بھی سمجھا جائے گا اور یہ ذھنيت کسی بھی صورت میں فروغ بھی نہیں حاصل کرپائے گی اور اگر اس کی کوشش کی جاتی ہے تو کسی نوعیت کا کوئی نتیجہ بھی نہیں آئے گا 

What are the causes of skinny girls?

The number of thin girls in the society is increasing rapidly and an attempt will be made to understand its reasons. What are the reasons wh...