Showing posts with label Aftab Ahmed Official. Show all posts
Showing posts with label Aftab Ahmed Official. Show all posts

Friday, July 24, 2020

انصاف کا مہذّب تصور

دنیا اتنی مہذّب نہیں تھی جتنی آج محسوس کی جاسکتی ہے اور انسانی ارتقاء دراصل تہذیب کا سفر بھی اس جس نے انسان کو آج اس قابل بنایا ہے کہ وہ غلط ، ٹھیک کے درمیان فرق نہ صرف سمجھ سکے بلکہ سمجھا بھی سکے - انسان کا سفر غاروں سے شروع ہوا جہاں وہ کچا گوشت کھایا کرتا تھا اور پھر عورت کی مہربانی سے اتفاقاً آگ کی دریافت نے پکانا سکھایا ، انسان رفتہ رفتہ مہذّب بنا اور سمندر یا دریاؤں کے کنارے بستیاں بسائیں 

معاشرے کے ساتھ ضوابط طے کرنے کی ضرورت تھی اور قوانین بنائے گئے جس نے معاشرے اور انسان کو مزید مہذّب بنانے میں اھم کردار ادا کیا اور قوانین کے نفاذ سے متعلق مسائل بھی سامنے آئے جس پر قابو پانے کی ہر کوشش معاشرے کو مزید تہذیب یافتہ بنانے کی کوشش بھی تھی ۔

دنیا میں کہیں زیادہ بہتری آئی اور کہیں کم بہتری نظر آئی لیکن تہذیب کا سفر آگے بڑھا اور پھر جمہوریت کے تصور نے انسان کو برابری دلوانے میں کردار ادا کرنا شروع کیا اور قوانین میں انسان حقوق اھمیت اختیار کرگئے 

اور ایسے تصورات مضبوط ہوئے جو انسانی حقوق اور جمہوریت کی وجہ سے قوانین کو انسانی فلاح و بہبود کیلئے اِستعمال کرنے پر زور دیتے تھے اس دور کے اثرات دنیا کے کئی ممالک اور معاشروں میں دکھائی دیتے ہیں جہاں قوانین انصاف کا مہذّب تصور نہیں رکھتے اور انسانی معاشرے میں بے چینی کا باعث بنے ہوئے ہیں ۔ 
جن امور کو قابلِ غور سمجھنا چاہیے ان میں سزا کا تصور بھی ہے جس کو مہذّب معاشرے میں اس طرح لیا جاتا ہے کہ جب تک مجرم قرار نہیں دیا جائے سزا شروع نہیں ہوسکتی ہے ۔ لوگ برسوں جیل میں قید رہتے ہیں جو اذیت ہے جو وہ خود اور اس کے خاندان کے افراد جھیلنے پر مجبور ہیں اور ضمانت کو فرد اور معاشرتی حقوق کے تناظر میں قابلِ غور ہونا چاہئے اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو یقینی بنانے کی بھی اشد ضرورت ہے کہ کسی بھی طرح سے شخصی توہین نہ ہو اور گرفتاری بطورِ حق ظلم اور ہراسانی کیلئے کسی بھی طور پر استعمال نہیں کیا جائے اور مہذّب دنیا کی طرح دستور کے تحت انسانی احترام کو مدنظر رکھتے ہوئے قانونی کارروائی ادا ہو ۔ 

Sunday, June 28, 2020

کیا ‏گٹکا ‏,ماوہ ‏اور ‏مین ‏پوری ‏وغیرہ ‏چبانے ‏والے ‏افراد ‏کورونا ‏وائرس ‏پھیلا ‏سکتے ‏ہیں ‏? ‏

جی ہاں ! پان،گٹکا ، مین پوری ، ماوہ وغیرہ کا استعمال کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں معاون ہے اور اس کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوشش کے طور پر خلاف قانون ان اشیاء پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے جو عام طور پر باآسانی دستیاب ہیں اور ان کا استعمال بھی معمول کے مطابق جاری ہے - پان چبانے والے افراد نے گٹکا ، ماوہ، مین پوری کا استعمال اس لئے شروع کیا کہ یہ اشیاء پان کے مقابلے میں سستی ہیں اور غربت کے ماحول میں ان مضر صحت اشیاء کی طلب مسلسل بڑھتی چلی گئی اور ایک وقت ایسا آیا جب سندھ اسمبلی میں ان اشیاء پر بحث ہوئی اور ضرورت سمجھی گئی کہ ان کے استعمال کو روکنے کی غرض سے قانون سازی کی جائے اور اس کے بعد اس بحث کا نتیجہ قانون سازی کی صورت میں سامنے آیا اور ان اشیاء کو بنانے ، فروخت کرنے ،اور استعمال کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی - خلاف قانون گٹکا ، ماوہ اور مین پوری کے ساتھ ساتھ بچوں کے لئے بنائی جانے والی میٹھی چھالیہ بھی پابندی کی زد میں آئی کیوں نہ میٹھی چھالیہ سے آغاز کرنے والے بچے جلد ہی گٹکے اور ماوے کے عادی ہونے لگے اور جہاں سے بچے میٹھی چھالیہ خریدتے تھے وہ دکاندار ان کو ترغیب دیتا تھا کہ وہ اب ماوہ یا گٹکے کا استعمال شروع کردیں تاکہ وہ زیادہ کما سکے اور وہ مین پوری کو میٹھی چھالیہ کے متبادل کے طور پر پیش کرتا تھا اور یوں بچے تیزی سے متاثر ہوتے چلے گئے اور ایک وقت ایسا آیا جب وہ ان اشیاء کے بغیر زندہ رہنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے اور اس قدر عادی ہوئے کہ رات کو منھ میں گٹکا یا ماوہ رکھتے ہوئے سوتے تھے - پان چبانے والے بالغاں نے ابتداء میں ان اشیاء کو زیادہ اھمیت نہیں دی اور جب تقابلی جائزہ لیا تو یہ اشیاء سستی تھیں اور غربت اور ضرورت نے ملکر ان کو مجبور کیا کہ وہ اب ان اشیاء کا استعمال کریں جو باظاہر ایک جیسی ہیں لیکن ان میں فرق موجود تھا اور یہ فرق اس قدر مہلک نتائج کا حامل تھا کہ ان کی مضر صحت ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی کیلئے خطرہ بننے لگا اور جب نتائج سامنے آئے تو چند افراد نے دوبارہ سے پان کھانا شروع کردیا لیکن بڑی تعداد اسی انداز سے مین پوری ، گٹکا اور ماوہ استعمال کرتی رہی اور کچھ افراد نے گٹکا اور ماوہ خود ہی تیار کرنا شروع کردیا تاکہ کم قیمت میں طلب پوری کی جاسکے - یہ افراد مجبوراً ایسا کررہے تھے کیوں کہ وہ چبانے کی عادت کا شکار ہوچکے تھے جو ان کو بچپن سے ہی اور جب انہوں نے میٹھی چھالیہ چبانے سے اپنا چبانے کا سفر شروع کیا تھا - چبانے کی یہ عادت وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتی گئی اور جو لوگ چبانے کی عادات کے حامل ہیں وہ کچھ نہ کچھ ضرور چبائیں گے اور چونکہ وہ نکوٹین کے عادی بھی ہوچکے ہیں لہٰذا گٹکا ،ماوہ،مین پوری یا پان ہی ان کی ضرورت کو پورا کرسکتے ہیں - کمرشل سطح پر جو گٹکا ،ماوہ یا مین پوری تیار کی جارہی ہے ان میں کیمیائی اجزاء بھی ملائے جاتے ہیں جو عادت کو مزید پختہ کرنے کا کام کرتے ہیں اس کے علاوہ ان اشیاء میں انتہائی تیز خوشبو کا بھی استعمال ہورہا ہے جو مصنوعی ہوتی ہے اور اردگرد موجود لوگوں کو باور کراتی ہے کہ ان کے اردگرد کہیں گٹکا یا ماوہ چبایا جارہا ہے اور اگر کسی فرد کو کورونا وائرس انفیکشن ہوچکا ہو تو ایسا فرد اپنے اردگرد موجود تمام افراد تک اس خوشبو یا بدبو کی صورت میں کورونا وائرس منتقل کرسکتا ہے اور اگر وہ کہیں پچکاری کرے گا تو بھی اردگرد کا ماحول تیزی سے متاثر ہوگا - صنعتوں کے لئے ایس او پیز جاری کئے گئے ہیں جن کی خلاف ورزی سامنے آرہی ہے اور ان خلاف قانون اشیاء کا استعمال صنعتی ورکرز میں معمول کے مطابق ہورہا ہے بلکہ اضافہ ہورہا ہے اور صنعتی مزدوروں میں ان خلاف قانون اشیاء کا استعمال اس لئے بڑھ رہا ہے کہ ان اشیاء میں تیاری کے دوران ایسا کیمیائی اجزاء شامل کئے جاتے ہیں جو انسانی جسم میں مستعدی لاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ صنعتی مزدوروں میں اس کا استعمال بڑھ رہا ہے اور ان مزدوروں میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی گٹکا ،ماوہ اور مین پوری چباتی نظر آتی ہیں اور ایسا ماحول بنایا جارہا ہے جس میں صنعتی مزدور تیزی سے عادی ہوتے جارہے ہیں - آج کے ماحول میں حساسیت بڑھ چکی ہے اور ہر شخص کوئی نہ کوئی نشہ کرتا دکھائی دیتا ہے اور جو بظاھر کوئی نشہ کرتے ہیں وہ ادوایات کا استعمال کرتے ہیں اور صنعتی کارکنوں کی قوت خرید کم ہونے کے سبب ایسے نشے مقبول ہوجاتے ہیں جو ان کو پھرتی بھی دیں اور ان کی طلب بھی پوری ہو - یہ خلاف قانون اشیاء اس لئے بھی مقبول ہیں کہ اس کے خلاف موثر قانونی کارروائی ممکن نہیں اور جب عام شخص خود گھر پر اپنے استعمال کے لئے اس کو تیار کرنا شروع کردے گا تو اس کو کیسے روکا جاسکے گا اور صرف اور صرف شعور کی بیداری ان مضرِ صحت اشیاء کے لئے اھمیت رکھتی ہے جو اثرانداز ہوسکتی ہے اور ماحول کو بھی بہتر بنایا جاسکتا ہے - گٹکے اور ماوے میں باریک پسا ہوا شیشہ استعمال کیا جاتا ہے جو منہ کے اندرونی جلد میں بہت ہلکے ہلکے کٹ لگاتا ہے اور تیزی سے نکوٹین خون میں شامل ہوتی ہے اور اس کا حد سے زیادہ عادی فرد کم خوراک ہوجاتا ہے اور اس کو بھوک کا احساس نہیں ہوتا اور صرف نشے کی طلب اس کو بے چین کرتی رہتی ہے 

Thursday, June 25, 2020

سیاسی ‏خیالات ‏اور ‏ملازمتوں ‏سے ‏برطرفی ‏


پاکستان میں ایک مباحثہ جاری ہے جو ماھرین تعلیم کو ان کے سیاسی افکار و خیالات کی وجہ سے ملازمتوں سے برطرف کرنے سے متعلق ہے اور یہ مباحثہ اس لحاظ سے بھی اھمیت کا حامل ہے کہ عملی طور پر طلباء کو سیاسی خیالات کے ذریعے بھڑکانے پر متعدد ماھرین تعلیم اپنے اپنے تعلیمی اداروں سے فارغ بھی کئے جاچکے ہیں - ماھرین تعلیم سمیت تمام تر شعبہ جاتی ماھرین کے لئے آذادی و اختیار کی نئی صورت حال نے جنم لیا ہے اور مجموعی طور پر جو تاثر ابھر رہا ہے وہ غیر جمہوری ہے اور معاشرے کے لئے نقصان دہ بھی ہے - ملک کا دستور و قانون ہر شہری کو اس بات کی آذادی دیتا ہے کہ وہ اپنا سیاسی نکتہ نظر رکھ سکتا ہے اور اس کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہوسکتا ہے حتیٰ کہ اپنے سیاسی افکار و نظریات کو مزید فروغ دینے کے لئے وہ اپنی خود کی سیاسی جماعت بھی بنا سکتا ہے اور ایسے حالات میں غیر جمہوری طرز عمل کا معاشرے میں بڑھنا تشویش ناک ہے اور یہ تاثر یا طرز عمل معاشرے کو بنجر بھی بنا سکتا ہے - طالبعلم اپنے اساتذہ سے متاثر ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ صدیوں سے چل رہا ہے اور طلباء اگر متاثر ہوتے ہیں تو وہ اساتذہ کے خیالات و افکار ہی ہوتے ہیں اور اگر یہ ریاست مخالف نہ ہوں تو ان پر قدغنیں لگا کر ان کو ان کی ملازمتوں سے نکال باہر کرنا ایک افسوس ناک امر ہے جو قابلیت کے حامل اساتذہ کو ان کے شاگردوں سے دور کرنے کے علاوہ ملک کو قابل اساتذہ سے محروم کرسکتا ہے اور وہ ملک چھوڑ کر کسی ترقی یافتہ ملک کا رجوع کرسکتے ہیں - اس وقت جو صورت حال ہے اس میں باالخصوص ماھرین تعلیم سے جو معاہدات کئے جارہے ہیں وہ ایسی شرائط کے حامل ہوتے ہیں جن کو توہین آمیز بھی کہا جاسکتا ہے - معاشرے میں جب تک ہر کسی کو اس کا جائز مقام نہیں دیا جائے گا معاشرہ صحت مند نہیں کہلا سکتا ہے اور ایک صحت مند معاشرے کی معاشرے کی بنیاد رکھنے کے لئے آج کے مخصوص حالات میں ہمیں زیادہ سنجیدگی سے ان امور کو سمجھنا ہوگا جن کی وجہ سے معاشرتی بگاڑ جنم لے سکتا ہے یا معاشرہ بیمار ہوسکتا ہے - جمہوریت اور اس کے بنیادی اصول و ضابطے ملکی قانون اور دستور سے نتھی ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو اس لئے سپورٹ کرتے ہیں کہ ایک صحت مند توازن ریاست میں پیدا ہو یا اس کو پیدا کیا جاسکے اور موجودہ صورت حال میں ماھرین تعلیم سمیت دیگر ماھرین جو معاشرے کے لئے دماغ کی حیثیت رکھتے ہیں ان پر بڑھتا دباؤ افسوس ناک ہی کہا جاسکتا ہے جو جمہوری طرز فکر کی نفی بھی ہے 

Wednesday, June 24, 2020

کورونا ‏سے ‏پیدا ‏شدہ ‏تبدیلیاں ‏

آج کی دنیا ایک بدلی ہوئی دنیا ہے اور نوول کورونا وائرس نے دنیا کا مزاج بدل کر رکھ دیا ہے اور بنیادی طور جو تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں ان کا انتہائی مختصر جائزہ اس آرٹیکل میں پیش کیا جائے گا - ترقی یافتہ ممالک جو مالی وسائل رکھتے ہیں وہ بھی شدید متاثر ہوئے ہیں اور ترقی پذیر غریب ممالک کی معیشت بیٹھ گئی ہے جس کو ایک طویل عرصہ چاہیے لہٰذا اِس کا ایک ہی حل ہے کہ ان کے قرضے اور ان پر عائد سود ختم ہو - پوری دنیا میں عوام پریشان اور حکومتیں حیران ہیں جو دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے اس کے ساتھ ساتھ صحت سے متعلق سماجی شعور میں اضافہ ہوا ہے اور اب آئندہ کا انسان بہتر تر شعور کے ساتھ زندہ رہے گا - بھوک ،غربت ،پسماندگی اور معاشرتی گراوٹ بڑھتی جائے گی اور ایک نیا ماحول سامنے آسکتا ہے جہاں روپے پیسے کی اھمیت مزید بڑھ سکتی ہے اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں ،طبی عملے اور ہسپتالوں کی تعداد میں اضافہ سامنے آئے گا - سیاسی افکار نیا رخ لے سکتے ہیں اور اچھی حکمرانی اور جمہوریت کے سنہرے اصول کہیں غائب ہوسکتے ہیں اور اس کی جگہ مطلق العنانیت کا فروغ ہوگا جس کو روکنے کی جدوجہد ابھی سے شروع کرنے کی ضرورت ہے - پہلے سے ہی موجود ڈیجیٹل کلچر مزید فروغ حاصل کرے گا اور ایک سیاسی ضرورت سمجھتے ہوئے بھی اس کو مزید فروغ دینے کی کوشش کی جائے گی - کورونا وائرس مکمل طور پر دنیا سے ختم نہیں ہوگا اور ویکسین آنے کے باوجود یہ موجود رہے گا اور اس کے ساتھ ہمیں ایچ آئی وی جیسا سلوک اپنانا ہوگا - لاک ڈاؤن ایک سیاسی ضرورت بھی تھی تاکہ غریب ممالک اپنے قرضے اور سود معاف کراسکیں اور اس نتیجہ بھیانک نکلا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے بھوک اور غربت نے لوگوں سے ان کی زندگیاں چھین لیں اور اس کی ایک مثال بھارت ہے جہاں اموات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور سرکاری طور پر اعدادوشمار مشکوک ہیں وہاں کم شرح اموات دکھائی جارہی ہیں تاکہ دنیا کی توجہ بھارت پر مرکوز نہ ہو - ترقی یافتہ ممالک میں بلعموم اور ترقی پذیر ممالک میں باالخصوص صفائی و ستھرائی کی صورتحال متاثر ہوئی ہے اور اس کا معیار بھی گرا ہے جو تشویش ناک ہے اور مزید اس میں گراوٹ آسکتی ہے - آج کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک الیکٹرانک تعلیمی نصاب تیار ہوسکتا ہے جو آئندہ بھی اس طرح کے حالات میں کام آسکتا ہے اور طلباء و طالبات اس سے مستفید ہوپائیں گے اور مستقبل کی اس ضرورت کی طرف بھرپور توجہ دی جاسکتی ہے جو اب ایک اھم تقاضا بھی ہے 

Saturday, June 20, 2020

ماحولیاتی ‏تحفظ ‏کے ‏لئے ‏ضروری ‏اقدامات ‏

اس مختصر رپورٹ میں یہ جائزہ لیا جائے گا کہ ماحولیاتی تحفظ کے لئے کس نوعیت کے اور کس قسم کے اقدامات ضروری ہیں جو آج کے حالات میں درپیش چیلنجز کی حیثیت رکھتے ہیں اور آج کے گلوبل ویلیج میں ذاتی حیثیت سے کیا کچھ کیا جاسکتا ہے اور اجتماعی سطح سے کیا کچھ کرنا ممکن ہے اور اگر ہم پاکستان کا جائزہ لیں تو یہاں کی صورتحال کے تناظر میں کچھ مثبت دریافتیں سامنے آئی ہیں جو ماحولیاتی آلودگی کم کرنے میں معاون ثابت ہونگی اور اس سے ماحولیاتی تحفظ کو بھی یقینی بنایا جاسکے گا موجودہ بین الاقوامی صورتحال میں کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا کے حالات تبدیل ہوچکے ہیں اور درپیش مسائل اور ان کی نوعیت میں بھی تبدیلی آئی ہے اور ان میں ماحولیاتی مسائل جیسے کہ آلودگی اور ماحولیاتی تحفظ کیلئے ان سے نمٹنا اہم تر بن چکا ہے جس کے لئے درکار سنجیدگی بھی ایک مسئلہ ہے جو سامنے آچکا ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کا امیج ماحولیاتی تحفظ کے لحاظ سے بھی بہتر بنایا جائے اور ایسے اقدامات کے لئے راستہ ہموار کیا جائے جن کے نتائج حوصلہ افزا ہیں اور ان میں ایک پاکستان کی کراچی یونیورسٹی کے سائنس دانوں کی طرف سے مصنوعی پلاسٹک کی دریافت اہم ترین ہے جو ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنائے گی کیوں کہ ماحولیاتی آلودگی میں سب سے بڑا حصہ پلاسٹک کا ہے جو تلف نہیں ہوتا اور کسی نہ کسی شکل میں موجود رہتا ہے جس کے مکمل خاتمے کی سمت راہ ہموار ہوئی ہے آج کے حالات میں پوری دنیا میں کچرے سے متعلق مسائل نے گمبھیر صورتحال اختیار کرلی ہے جس کا ایک سبب کورونا وائرس کا پھیلاؤ بھی ہے جس نے عام طور سے معمولات زندگی کو متاثر کیا ہے اور کچرہ مسلسل مسئلہ بن رہا ہے اور آگے کے حالات میں اس کی نوعیت اور شدت بڑھتی نظر آرہی ہے ان حالات میں کراچی یونیورسٹی سے سائنس دانوں جو کہ ماحولیات سے متعلق ہیں ایک ایسی دریافت سامنے لائے ہیں جو غیر معمولی ہے کیوں کہ تیار کردہ پلاسٹک قدرتی انداز میں تلف کیا جاسکتا ہے اور ماحول دوست ہے حتیٰ کہ اگر اس پلاسٹک کو کھایا جائے تو وہ انسانی صحت کیلئے کسی بھی لحاظ سے مضر نہیں ہے اور اس کے کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ہمیں ایسے پلاسٹک اور اس کے استعمال کو اھمیت دینی ہوگی جو ماحولیاتی تحفظ کے لئے بھی ضروری ہے اور اسے ترقی کی سمت ایک اھم قدم سمجھنا ہوگا ماحولیاتی تحفظ انسانی زندگی کے لئے ضروری ہے اور جہاں بھی دنیا میں بہتر انداز میں ماحولیاتی تحفظ کے لئے اقدمات اٹھائے گئے وہاں زندگی اور عمر میں اضافہ ہوا اور عام شہریوں کی شرح اوسطاً بڑھی جبکہ دنیا میں جہاں کہیں اس ضمن میں بھرپور اور مناسب اقدامات نہیں کئے گئے وہاں انسانی زندگی محدود ہوئی اور شرح اموات میں اضافہ دیکھنے کو ملا خصوصاً غریب ممالک یا ترقی پذیر ممالک میں صورتحال زیادہ خراب ہے اور شور کی آلودگی ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے جو ہمیں ترقی یافتہ ممالک میں نظر نہیں آتی اور عام طور سے شہروں میں یہ مسئلہ ہے جہاں ہر چیز لاؤڈ اسپیکر پر فروخت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور پاکستان کا شمار ایسے ہی ممالک میں ہوتا ہے جہاں بڑے شہروں کا ایک بڑا مسئلہ شور کی آلودگی بھی ہے جس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے کیونکہ لاؤڈ اسپیکر استعمال کرنے سے بہتر فروخت ہوتی ہے اور ہر کوئی ایسا ہی کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ زیادہ کما سکے اور بڑے شہروں کے پسماندہ علاقے شدید متاثر ہیں جہاں کوئی آرام سے نہیں سو سکتا ہے اور مسلسل ذھنی دباؤ میں ہے جس کے خلاف موثر قانونی مہم وقت کی ضرورت ہے تاکہ شہری کم از کم سکون سے سو سکیں جو کورونا وائرس کی وجہ سے پہلے سے ہی متاثر ہیں اور یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ خلاف قانون لاؤڈ اسپیکر کا استعمال روکا جاسکے جس کے بارے میں یہ تاثر موجود ہے کہ یہ عین قانون کے مطابق ہے 

Saturday, May 30, 2020

Is the change in social behavior positive ?

جی ہاں !اس کے لئے کچھ باتوں کو باریک بینی سے ہمیں سمجھنا ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ اس کے پس منظر کو ذھن میں رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا تاکہ اس تصور کے مہلک اثرات سے بھی ممکن حد تک بچا جاسکے عالمی وباء نے پوری اِنسانیت کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور کچھ ممالک میں زیادہ اور کچھ ممالک میں کم ہلاکتیں ہوئی ہیں لیکن اس کی وجہ سے جو تبدیلیاں وقوع پذیر ہورہی ہیں ان کے مختلف پہلو بھی سامنے آرہے ہیں اور جہاں نئے قوانین متعارف کرائے جارہے ہیں وہیں انسانی حقوق کے ضمن میں نئے سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور سیاسی نظام پر اس کے اثرات کا دنیا بھر میں جائزہ لیا جارہا ہے تاکہ دستور کے تحت موجود جمہوری سیاسی نظام کے تحفظ کو بھی ممکن بنایا جاسکے دنیا بھر حکومتیں لوگوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کے لئے جو اقدامات کررہی ہیں وہ دلیل سے ان کو ثابت بھی کررہی ہیں کہ یہ درست سمت کے اقدامات ہیں جبکہ اس پہلو کو ہمیں سمجھنا ہوگا کہ صحت مند اور وباء سے جو لوگ متاثر نہیں ہوئے کیلئے بنائی جانے والی حکمت عملی کے سیاسی اور قانونی پہلو کیا ہیں اور ان کو ہمیں انسانی حقوق اور جمہوری سیاسی حقوق کے تناظر میں سمجھنا ہوگا عوامی حقوق سیاسی پس منظر رکھتے ہیں اور سویڈن کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں بنیادی عوامی حقوق کے سیاسی پس منظر کو ذھن میں رکھتے ہوئے متاثر ہونے سے بچایا گیا اور یوں عملی طور پر ایک نئی سیاسی تہذیب بھی متعارف کرائی گئی جسے مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے اور جہاں عوامی شعور زیادہ پختہ ہوا اور بیمار لوگوں نے ازخود اپنے آپ کو الگ تھلگ کیا تاکہ لوگ متاثر نہ ہوں اور وہاں صحت مند افراد زندگی کا لطف لے رہے ہیں جن افراد نے بیماری کی علامات محسوس کرتے اپنے آپ کو الگ تھلگ کیا وہ قابلِ تحسین ہیں کیوں کہ ان میں سے کچھ افراد وائرس سے متاثر بھی تھے علامات کی صورت میں فوری طور پر الگ ہوجانا یا رہنا آج کی نئی سیاسی تہذیب کے طور سے متعارف ہونی چاہیے 

Friday, May 15, 2020

کورونا ‏وائرس ‏۔ ‏سیاسی ‏پہلو ‏

دنیا بھر میں کورونا وائرس سے پھیلے خوف,اندیشے اور موجود صورتحال کے کئی پہلو موجود ہیں جن اس کا سیاسی پہلو بھی اھمیت کا حامل ہے اور اس تحریر میں اس پر روشنی ڈالی جائے گی مندرجہ ذیل سیاسی پہلو قابلِ غور ہیں ۔ جمہوریت نے جو سفر صدیوں میں طے کیا تھا اس کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ اور تدارک کیلئے کی جانے والی تدابیر جیسے کہ لاک ڈاؤن اور سماجی دوری نے نقصان پہنچایا ہے اور بنیادی جمہوری سیاسی تصورات میں دڑار پیدا ہوئی اس کے علاوہ چین پر سیاسی طور پر الزامات لگائے گئے کہ اس نے دانستہ طور پر وائرس پھیلایا ہے جس کی سیاسی بنیادوں پر تنقید اور نفی سامنے آئی اس موقف کے حق میں دلائل بھی سامنے لائے گئے اور پرانی ویڈیوز اور اس کے مندرجات سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ۔ بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو جواز بنا کر سیاسی بنیادوں پر اس کا فائدہ اٹھا لیا گیا اور کشمیری عوام کو صحت کی سہولیات تک رسائی کو روکا گیا اور ان کے بنیادی حقوق متاثر ہوئے ۔ لاک ڈاؤن سویڈن کے علاوہ تقریباً پوری دنیا میں لگایا گیا اور اس سے غربت میں اضافہ ہوا اور خصوصاً ترقی پذیر غریب ممالک میں سماجی اور سیاسی بے چینی نے جنم لیا جو ان ممالک میں سیاسی تبدیلی بھی پیدا کر سکتی ہے اور ان ممالک کی معیشت نے جو نقصان برداشت کیا اس کے سیاسی نتائج وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آئیں گے ۔ عالمی مالیاتی اداروں نے صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کیا یہ اضافہ سیاسی پہلو رکھتا ہے اور پھر خصوصاً ایسے وقت میں کچھ ممالک کو آئندہ مالیاتی سال کے لئے ہدایات دی گئيں جن میں پاکستان شامل ہے جو مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے ۔ دنیا کے سامنے ایک نیا تجربہ آیا اور اس سے صرف وہ ممالک ہی بچ پائیں گے جو بہتر معیشت کے ساتھ موجود ہیں اور زیادہ آبادیوں والے ممالک اب زیادہ متاثر ہونگے جہاں کمزور معیشت اور صحت کی سہولیات کی کمی کی وجہ سے بروقت ٹیسٹ نہیں کئے گئے اور پیدا شدہ صورتحال سیاسی بحران کی طرف جاسکتی ہے 

Wednesday, April 22, 2020

پاکستان میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانا ممکن ہے کیسے ؟

درج ذیل حالات اور ضروریات کے مطابق اگر ماحول تشکیل دیا جائے تو بہت آسانی سے کرونا وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پایا جاسکتا ہے 
1-ہر صوبے میں ایک ہی مخصوص جگہ یا ہسپتال کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کیلئے مخصوص کیا جائے 
2-کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کو جو طبی عملہ خدمات فراہم کر رہا ہو ان کو گھر جانے سے پہلے ٹیسٹ کرانا ہوگا 
3-اگر طبی عملے کے کسی فرد میں کرونا وائرس کی علامات ملیں تو اس کو گھر جانے کی اجازت نہیں دیجائے 
4- مخصوص جگہ یا اس ہسپتال کو چاروں طرف سے گھیرے میں لیا جائے 
5- کس کو وہاں کسی بھی کام سے جانے کی اجازت نہ ملے مریض یا طبی عملہ ہی وہاں جاسکتے ہوں 
6-جہاں کہیں سے کوئی کیس رپورٹ ہونے کی صورت میں اس فرد کو فوراً وہاں منتقل کیا جائے اور فاصلہ ہونے کی صورت میں ہیلی کاپٹر استعمال ہو 
7- وہاں سے صرف صحت مند مریضوں کو  جانے کی اجازت ہو یا انتقال کرنے والے افراد کی میتیں حوالے کی جائیں 


Tuesday, February 25, 2020

Degital Pakistan

aftab ahmed (@aftab3332267638) Tweeted: معاشرے سے ڈیجیٹائزڈ جرائم کے خاتمے اور ڈیجیٹل پاکستان کے وقت سے ہم آہنگ تصور کے لئے ضروری ہوگا کہ یہ ناممکن بنادیا جائے کہ ملک میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے بھی جرائم کا ارتکاب ہوسکتا ہے لیکن اسے اظہارِ رائے کے جمھوری تصور کے منافی نہیں ہونا چاہیے ۔ https://twitter.com/aftab3332267638/status/1232227780034691072?s=20

Sunday, February 16, 2020

State and Rights

aftab ahmed (@aftab3332267638) Tweeted: قانون کے تحت متعین کردہ حقوق حاصل کرنے کیلئے اگر اخراجات کرنے پڑیں تو ایسے معاشروں میں بے چینی جنم لیتی ہے اور پھر اس کا تناسب بڑھتا چلا جاتا ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک و معاشرے صرف اسی وجہ سے ترقی یافتہ بنے ہیں کہ وہاں عام فرد کو اخراجات سے بچایا گیا ۔ https://twitter.com/aftab3332267638/status/1228974631178178567?s=20

Saturday, February 8, 2020

Latest Information.

aftab ahmed (@aftab3332267638) Tweeted: Latest Information . https://t.co/nsMKR4k5Ge via @YouTube https://twitter.com/aftab3332267638/status/1226101853739462659?s=20

Wednesday, January 22, 2020

Concept

aftab ahmed (@aftab3332267638) Tweeted: معاشرے میں مسائل کا سب سے بژا سبب حق تلفی بطور روایت , خواہش اور ظلم پر مبنی موجود ہے ۔ حق تلفی کا یہ انداز لاعلمی سے بحث سے بھی بحث کرتا ہے اور خصوصاً اس فرد کی حق تلفی ممکن بنائی جاتی ہے جو اس سے متعلق ادراک نہیں رکھتا ہے اور وقت کا ضیاع ناقابلِ تلافی حق تلفی کہلاتا ہے ۔ https://twitter.com/aftab3332267638/status/1219888709664956417?s=20

Saturday, January 18, 2020

Aftab Ahmed

https://www.google.com/url?sa=t&source=web&rct=j&url=https://m.facebook.com/writer03332267638&ved=2ahUKEwi-jNeon43nAhWCKewKHbgmBXwQFjAAegQIAhAB&usg=AOvVaw3dD6Yo6JgkZK-365qqsbWZ

Thursday, January 16, 2020

Kashmir

aftab ahmed (@aftab3332267638) Tweeted: عالمی برادری تسلیم کرچکی ہے کہ مودی گردی نے کشمیر کو جیل میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے اس کے باوجود معاشی مفادات بطور ایک بڑی منڈی عالمی سطح پر باعثِ کششِ ہے اور یہ وہ بات ہے جس نے کشمیر کاز کو نقصان سے دوچار کرکے رکھ دیا ہے ۔ عالمی مفادات کو بہتر سمت دینے کے لئے اقدامات ناگزیر ہیں https://twitter.com/aftab3332267638/status/1217711238710550528?s=20

Tuesday, January 14, 2020

INDIA

aftab ahmed (@aftab3332267638) Tweeted: آر ایس ایس نے بھارت کی ایٹمی صلاحیت کا کنٹرول سنبھال لیا ہے جو کہ حد درجہ تشویش ناک ہے ۔ خطے کے اربوں افراد کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوچکے ہیں ۔ آر ایس ایس نسلی بالادستی پر یقین رکھتی ہے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کی بنیاد پر سیاست کررہی ہے ۔ بھارتی بیانیہ غیر واضح ہے اور مہلک ہے https://twitter.com/aftab3332267638/status/1217033842340585472?s=20

Thursday, December 26, 2019

The Concept of Right

aftab ahmed (@aftab3332267638) Tweeted: Providing Justice against the violation of rights only made possible by the law and some laws have now become the need of the times to take serious action that requires conscious people and lawyer interested can contact me directly . https://twitter.com/aftab3332267638/status/1210095256382967808?s=20

The Concept of Rights

aftab ahmed (@aftab3332267638) Tweeted: حقوق کی خلاف ورزی کے برخلاف انصاف فراہمی بذریعہ قانون ہی ممکن بنائی جاتی ہے اور ایسے کچھ قوانین اب وقت کی ضرورت بن چکے ہیں جن پر سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت محسوس کی جانی چاہیے جو باشعور افراد و قانون دان دلچسپی رکھتے ہوں وہ مجھ سے برائے راست رابطہ کرسکتے ہیں ۔ https://twitter.com/aftab3332267638/status/1210085657869275137?s=20

Saturday, December 14, 2019

Script

aftab ahmed (@aftab3332267638) Tweeted: میری رائے میں ڈرامہ اسکرپٹ میں پیغام اس انداز سے دینا ضروری ہے جو تفریح کی خوبصورتی کو متاثر نہ کرے اور بنیادی تصور اگر کسی عوامی مسلئے کو بنایا جائے تو ضروری ہوگا کہ اس کے تصورات انتہائی نچلی سطح سے لئے جائیں اور اس کے اثرات بھی انتہائی نچلی سطح پر جائیں ۔ https://twitter.com/aftab3332267638/status/1205762293742686208?s=20

Wednesday, December 11, 2019

Human Right in Pakistan.

aftab ahmed (@aftab3332267638) Tweeted: آج دنیا بھر میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جارہا ہے ۔ پاکستان میں بنیادی انسانی حقوق سے تعلق رکھنے والے ایسے حقوق کی خلاف ورزی بھی موجود ہے جس کے خلاف قانونی دادرسی بشکل قانون موجود نہیں ۔ جو وکلاء اور باشعور افراد کام اور رابطہ کرنا چاہیں . 03042788973 03332267638 https://twitter.com/aftab3332267638/status/1204645178029551616?s=20

Saturday, December 7, 2019

احتجاج کی اشکال جدید تصور

https://aftab315749254.wordpress.com/2019/12/07/%d8%a7%d8%ad%d8%aa%d8%ac%d8%a7%d8%ac-%da%a9%db%8c-%d8%a7%d8%b4%da%a9%d8%a7%d9%84-%d8%ac%d8%af%db%8c%d8%af-%d8%aa%d8%b5%d9%88%d8%b1/

What are the causes of skinny girls?

The number of thin girls in the society is increasing rapidly and an attempt will be made to understand its reasons. What are the reasons wh...