Showing posts with label democracy and Pakistan. Show all posts
Showing posts with label democracy and Pakistan. Show all posts

Saturday, May 23, 2020

اظہارِ ‏رائے ‏کا ‏جمہوری ‏تصور ‏

اظہارِ رائے ایک فطری عمل ضرورت ہے جو بطورِ حق تصور رکھتا ہے اور جس کو انسانی تاریخ میں مختلف ادوار میں مسخ کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی خصوصاً شہنشاہیت نے اظہارِ رائے کو اپنے تابع بنانے کے لئے نہ صرف حکمت عملیاں وضع کیں بلکہ اسے آرٹ کا درجہ بھی دیا اور دانشور طبقے سے ایسی کتابیں لکھوائیں جو اظہارِ رائے کے عوامی حق کو محدود کرنے کے لئے اصول وضع کریں -اظہارِ رائے تبدیلی لیکر آتی ہے اور اس کا عملی تصور دراصل جمہوری تصور ہے اور باقاعدگی سے دیگر انسانی حقوق کے لئے راستہ ہموار کرتا ہے -جنوبی ایشیا کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہاں کوتلیہ چانکیہ کی کتاب ارتھ شاستر کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے جس میں اس نے بادشاہ کو اظہارِ رائے کی بابت مشورے دیئے اور اظہارِ رائے کی اثرپذیری کو محدود کرنے یا مکمل طور پر ختم کرنے کیلئے طریقہ کار بھی وضع کیا وہ خود بھی بادشاہت میں ایک اہم عہدے پر فائز تھا اور آج کے بھارت میں عملی سیاست میں کوتلیہ چانکیہ کے تصورات اہم درجہ رکھتے ہیں اور ان کو اپنایا بھی جاتا ہے یہ تصورات اب مذہبی تصور کے بھی بن چکے ہیں جن کی وجہ سے بھارتی سیاست میں شدت پسندی بڑھ چکی ہے ۔ انسانی حقوق کے عالمی منشور کی شق انیس کے تحت ہر شخص کو اپنی رائے رکھنے اور اظہارِ رائے کی آذادی حاصل ہے جس کو ہراساں کرنے کی کوشش دنیا میں ہر جگہ کی گئی - انسانی جدوجہد بابت جمہوریت نے اظہارِ رائے کیلئے راستہ ہموار کیا اور اظہارِ رائے نے جدوجہد کیلئے بنیاد کا کام کیا ۔ یہ تصور شائع ہونے اور شائع کرنے کے تصور سے بھی گہرا ربط رکھتا ہے اور ان کے لئے اصول وضع کرتا ہے اور اس لئے بھی اھمیت رکھتا ہے کہ اس سے معاشرتی بے چینی میں کمی آتی ہے اور ان حقوق کا استعمال بھی ہے جس کے تحت وہ اپنی تخلیقی سوچ اور صلاحیت کو پروان چڑھا سکتا ہے اور ریاست کا شہری رہتے ہوئے وہ حکمت عملیوں پر تنقید اور ان کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی رائے دے سکتا ہے اور اگر رائے کو روکا جاتا ہے تو دراصل معاشرہ سانس نہیں لے سکتا کیوں کہ تازہ ہوا معاشرے کو نہیں ملتی اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ معاشرے کو تازگی اور تازہ ہوا کی ضرورت نہیں ہے وہ کوشش کرتے ہیں کہ اظہارِ رائے کو محدود رکھتے ہوئے اقدامات کئے جائیں اور حکمران طبقہ ان میں پیش پیش ہوتا ہے - آج کے دور میں ووٹنگ اظہارِ رائے کی شاندار مثال ہے جس کے لئے حکمت عملی بنائی جاتی ہے اور جس کو آج کے دور ایک ایسے آرٹ کا درجہ حاصل ہے جو اس وقت سرمایہ کاری کے ساتھ بھی پرکشش سمجھا جاتا ہے اور مضبوط معیشت کے ممالک میں اس پر ہونے والے اخراجات غیر معمولی اس لئے ہیں کہ یہ آرٹ مہنگا ہے اور آرٹ ہمیشہ مہنگا رہا ہے اور ووٹ خریدنے کیلئے جو حکمت عملی اپنائی جاتی ہے وہ خطہ اور مقامی سطح کی ضرورت سے بحث کرتی ہے جو درجہ سیاسی افکار و شعور موجود ہوتا ہے اس کے مطابق نتائج لانے کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے حکمت عملی بنائی جاتی ہے اور کم سے کم سطح پر طےشدہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اثر انداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے - بھارت دنیا کی ایک بڑی جمہوریت شمار کی جاتی ہے اور وہاں کے انتخابات اور اس کا معیار وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پستی کی جانب جاتا نظر آتا ہے جو پورے خطے کیلئے نقصان دہ ہے اور اس کے اثرات پڑوسی ممالک پر گہرے ہیں جن کو بھارت سے شکایات رہتی ہیں اور وہ سرحدوں کی خلاف ورزی کرتا رہتا ہے اور پاکستان کی حد تک صورتحال زیادہ مخدوش ہے جہاں یہ خدشہ موجود ہے کہ بھارت عیدالفطر کے موقع پر سرحد پر کوئی بڑی کارروائی کرسکتا ہے اور وہ اپنی ریاست میں سرکاری بیانیہ عوامی رائے بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے جس کے لئے وہ سیاسی افکار و تصورات کو مذہبی عقیدت میں لپیٹ کر نفرت کو فروغ دینے کی کوششیں کررہا ہے اور اس میں کسی حد تک کامیابی حاصل کرچکا ہے - آجکل کے حالات میں اظہارِ رائے خفیہ طور پر بھی سامنے آتی ہے اور اس کی عمدہ مثال سوشل میڈیا ہے جو اثرورسوخ حاصل کرچکا ہے اور اثرانداز بھی ہوتا ہے اور جس کی بدولت معاشرے نے ترقی بھی کی ہے جس کے منفی استعمال کیلئے دنیا بھر میں سوچا جاتا ہے اور کہیں کہیں اس کا استعمال عمدگی سے نظر بھی آتا ہے اور ان میں ترقی یافتہ ممالک سرفہرست ہیں اور اگر مسلسل اسی طرح اس سے استفادہ کیا گیا تو یہ سیاسی بحران بھی جنم دے سکتا ہے - معاشرتی ساخت میں بہتری کیلئے جو کچھ کیا جاسکتا ہے اسے ضرور کیا جانا چاہیے اور انسانی حقوق کو اولین درجے پر رکھتے ہوئے سوچنے کی ضرورت ہے 

What are the causes of skinny girls?

The number of thin girls in the society is increasing rapidly and an attempt will be made to understand its reasons. What are the reasons wh...