Showing posts with label تازیانہ. Show all posts
Showing posts with label تازیانہ. Show all posts

Friday, June 26, 2020

جمہوریت ‏اور ‏عام ‏آدمی ‏

انسانی تاریخ میں ریاست کے قیام کو معاشرتی ارتقاء میں ایک سنگِ میل قرار دیا جاتا ہے - ریاست کے بننے سے انسانی مشکلات میں واضح کمی آئی اور جدید معاشرے کے لئے ایک جدوجہد کا آغاز ہوا - ابتداء میں روحانی پیشواؤں یا قبائلی سردار طاقتور سمجھے جاتے تھے اور یہ افراد ہی ملکر حکومت کی تشکیل کیا کرتے تھے - یہ افراد زمینوں کے مالک بھی ہوتے تھے اور اپنی طاقت سے مذید طاقت حاصل کرتے تھے اور ایسا ماحول موجود تھا جس میں عام آدمی کا کردار اطاعت سے زیادہ نہیں تھا - جنگوں کے نتیجے میں ریاستوں کی ٹوٹ پھوٹ ہوتی رہتی تھی اور نئی نئی ریاستیں وجود میں آتی رہتی تھیں - حکومت کا معیار طاقت تصور کیا گیا اور صدیوں تک دنیا طاقت کے حصار میں قید نظر آتی ہے - طاقتور کے الفاظ قانون کا درجہ رکھتے تھے اور عام افراد محکوم تھے جن کی کوئی اھمیت موجود نہیں تھی ان کی مرضی و منشاء کی کوئی اھمیت سرے سے ہی نہیں تھی جبکہ یہ تعداد میں بہت زیادہ تھے اور حکمرانوں کا جہاں بیرونی حملوں کے خدشات پریشان کن بنتے تھے اور اس ضمن میں وہ اکثر ضروری نوعیت کے اقدامات بھی اٹھایا کرتے تھے وہیں اس غالب اکثریت کے لئے بھی ایسے اقدامات کئے جاتے تھے جس سے ان کو قابو میں رکھا جائے اور یہ آسان نہیں ہوتا تھا اور ان اقدامات کے نتیجے میں مظالم جنم لیتے تھے اور ہمیشہ قانون طاقت ور کا ساتھ دیتا اور ریاستی ڈھانچے کو تقویت بھی فراہم کرتا تھا - ریاست کی ترقی کا سفر جاری رہا اور باقاعدہ بادشاہت نے ریاستی خدوخال میں تبدیلی پیدا کی - بادشاہت طاقتور سرداروں اور روحانی پیشواؤں کو خوش رکھنے اور ان کو اپنے ساتھ رکھنے کی ترغیب میں نظر آتی کیوں کہ اس سے بادشاہت مضبوط ہوتی تھی - اعلیٰ فوجی افسران کی بھی اھمیت تھی اور یہ سردار بھی ہوتے تھے اور مجموعی طور پر بادشاہ انہی لوگوں میں سے زیادہ طاقت ور فرد ہوتا تھا اور زیادہ طاقت کو حکمرانی کے جواز کے طور پر پیش کیا جاتا تھا اور جو اطاعت سے انکار کرتے تھے ان سے جنگ کی جاتی تھی اور فاتح حکمرانی کا حق استعمال کرتا اور اس کو جواز ثابت کرتا تھا - عام افراد کیلئے اطاعت سے زیادہ کچھ نہ تھا اور جو اطاعت سے انکار کرتے تھے ان کے لئے سخت سزائیں اور قیدخانے موجود تھے جہاں سے وہ اس وقت نکالے جاتے تھے جب ان کی موت واقع ہوجاتی تھی اور آج بھی معاشرے میں اس کا عکس موجود ہے اور طاقتور طبقے کی یہ خواہش موجود ہے کہ وہ اپنی اجارہ داری کیلئے مظلوم عوام پر طاقت کا استعمال کریں - ریاست کی ابتداء کے ساتھ ہی ایسے افراد بھی پیدا ہوئے جو شعور میں دیگر افراد سے بڑھ کر تھے اور جن کو دانشور کہا گیا ان کی ایک بڑی تعداد ریاست سے اختلاف رائے کی وجہ سے ہلاک کردی گئی - ان ہی لوگوں میں سے بعض نے شاعری کی اور ادب بھی تخلیق کیا اور جن لوگوں نے ریاست کے بارے میں سوچا انہوں نے زیادہ بہتر مقام حاصل کیا اور وہ آج تاریخ کا ایک اھم حصہ ہیں - ریاستی سطح پر مختلف تجربات کئے گئے اور اس میں بادشاہ کی مرضی کا بھی عمل دخل رہا اور کچھ ایسے تجربات بھی ہوئے جو حکمرانوں کی مرضی کے خلاف تھے اور ان ہی سیاسی نوعیت کے تجربات نے تاریخ رقم کی اور جو سیاسی افکار و نظریات کے تحت عام فرد کو محور بنا دیا کئے گئے - عمومی طور پر یہ تجربات انتہائی چھوٹی ریاستوں یا شہروں میں کئے گئے اور بادشاہت کو یہ باور کرایا گیا کہ ان سے ان کی حکمرانی کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور اس کے نتائج ایسے آئیں گے جس سے عوام الناس بہتر انداز میں قابو میں رہیں گے اور یوں جمہوریت کی ابتدائی تجربات ظہور پذیر ہوئے اور ابتدائی طور پر نوابوں اور رؤسا کیلئے جمہوریت لائی گئی جو حکومت میں حصہ بنانے کے لئے ناگزیر ضرورت تھے اور ان پر مشتمل پارلیمانی نظام کا آغاز بھی ہوا جس میں وقت کے ساتھ ساتھ عوام بھی داخل ہوئے اور انہوں نے بھی حکومت میں اپنا حصہ طلب کیا اور ابتدائی تاریخ کا مطالعہ یہ ثابت کرنا ہے کہ عوام کو حکومت میں حصہ اور حق رائے دہی ایک رعایت سمجھ کر دیا گیا اور آج ریاست کے مالک ہی عوام ہیں - یوں محدود سطح سے جمہوریت کا سفر شروع ہوا اور عوام الناس تعداد میں زیادہ تھے لہٰذا وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ سب کچھ ان کے حق میں ہوتا چلا گیا اور جمہوریت کی ماں برطانیہ میں دارلعوام طاقتور ہوا جبکہ اس سے پہلے دارلعمراء سب کچھ تھا اور تمام انسانوں فیصلے وہیں سے کئے جاتے تھے - جمہوریت کیلئے جو جدوجہد کی گئی اس کی ایک تاریخ موجود ہے اور وہ تاریخ رنگین بھی ہے اس میں انسانوں کا لہو شامل ہے اور جب جمہوریت عام آدمی کا ذاتی معاملہ بنی تو تیزی سے تبدیلیاں آئیں اور صنعتی دور میں معاشرے کی ضرورت ہی جمہوریت تھی جس کے بغیر معاشرہ آگے نہیں بڑھ سکتا تھا اور اختلاف رائے نے ایک نیا ماحول تشکیل دیکر جمہوریت کو مضبوط کیا اور بادشاہت ماضی کا ایک ایسا قصہ ہے جس میں انسان کو اذیت کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آتا ہے اور ماضی کی بوسیدگی آج تحقیق کی حد تک زندہ ہے 

Wednesday, May 27, 2020

جمہوریت ‏اور ‏سماجی ‏دوری ‏

آج دنیا بھر میں ساڑھے تین لاکھ افراد کورونا وائرس سے جاں بحق ہوچکے ہیں اور آئندہ آنے والے دنوں کے لئے کوئی حتمی بات نہیں کی جاسکتی ہے کہ یہ تعداد کہاں تک پہنچ جائے اور کسی عالمی وباء کی اب تک کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے جو کہ اب ریکارڈ کا ایک حصہ بھی ہے - انسانی معاشرے کے لئے کچھ عناصر ضروری سمجھے جاتے ہیں اور ان میں دستور کے مطابق ریاست کا چلایا جانا اہم ترین ہے اور جو ریاست دستور کے مطابق چلائی جارہی ہو وہاں جمہوریت بطور طرز عمل اور سیاسی ضرورت موجود ہوتی ہے جس کے لئے انسان نے صدیوں جدوجہد کی اور ریاست کو ترقی یافتہ بنایا اور جس کے سبب معاشرے ترقی یافتہ بنے - آج کے ترقی یافتہ ممالک یا معاشرے جمہوریت کی ترقی یافتہ شکل بھی ہیں اور اتفاقیہ طور پر ان ہی ممالک اور معاشروں کو کورونا وائرس نے زیادہ متاثر بھی کیا مثلاً امریکہ جہاں کورونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتیں ایک لاکھ سے زیادہ ہوچکی ہیں اس کے علاوہ دیگر ترقی یافتہ ممالک میں بھی مخدوش صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے جو کہ ایک المیہ بھی ہے اور اس نے انسان کو دوسرے انسان سے خوفزدہ کردیا ہے اور ہر کوئی دوسرے کو ایسی نگاہ سے دیکھ رہا ہے کہ جیسے وہ کورونا وائرس کا نشانہ بن چکا ہے اور اس سے سماجی دوری اپنانے کی ضرورت ہے جب کہ ایسا ہرگز نہیں کیونکہ اگر کوئی دوسرا انسان کورونا وائرس سے متاثر نہیں تو وہ صحت مند ہے اور آپ اس سے روزمرہ کے تعلقات برقرار رکھ سکتے ہیں اور اس سے آپ کو کوئی خطرہ نہیں ہے جس بات سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ کورونا وائرس سے متاثرہ کوئی فرد آپ کے اردگرد موجود ہو اس کے لئے واضح لائحہِ عمل اپنانے کی ضرورت ہے اور اس بات کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا ہے اور اس کے لئے بھرپور مہم چلانے کی ضرورت ہے اور میڈیا میں اس کے لئے تشہیری مواد موجود ہونا چاہیے آج کوئی بھی شخص اپنی بیوی سے خوفزدہ نہیں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتا ہے کہ اس کی بیوی کورونا وائرس سے متاثر نہیں ہے یہی طرزِعمل ہمیں پورے معاشرے کے لئے اپنانا ہوگا اور جن لوگوں کو معمولی سے بھی خدشات یا علامات ہوں انہیں لازمی اپنا ٹیسٹ کرانا ہوگا - صدیوں سے موجود جمہوری روایات آج خطرات میں ہیں اور اگر اس بنیادی تصور کو سمجھ لیا جائے تو ہم جمہوریت ,اس کے لئے کی جانے والی جدوجہد ,اس کے ثمرات اور منسلکہ تصورات و روایات کے لئے بہت کچھ کرسکتے ہیں اور بنیادی تصور کے طور پر ہمیں یہ بات سمجھنی ہے کہ سماجی دوری کو کیسے اور کس طرح سے اپنایا جائے جو آج کی ضرورت بھی پوری کرے اور جمہوری روایات و تصورات کے ساتھ ساتھ اس کے ثمرات کو ضائع ہونے سے بھی بچایا جاسکے 

SENATE OF PAKISTAN

Under the constitution of Pakistan, there is a two-member parliament, one is the National Assembly and the other is the Senate of Pakistan.T...