Saturday, March 18, 2023

آج کی جدید غلامی

ہر سال 2 دسمبر کو عالمی سطح پر غلامی سے نجات کا دن منایا جاتا ہے پاکستان سمیت دنیا بھر میں غلامی سے نجات کا عالمی دن منانے کا مقصد غلامی کا مکمل اور ہر سطح پر خاتمہ کرنا ہے یہ دن غلامی کا پس منظر اور غلامی کے خاتمے کے لئے لیے کی جانے والی جدوجہد کی یاد کو بھی تازہ کرتا ہے اس موقع پر کانفرنسز کا انعقاد عمل میں لایا جاتا ہے سیمینار ہوتے ہیں غلامی کے خاتمے کے لیے نئے خیالات و تصورات بھی پیش کیے جاتے ہیں یہ ان لوگوں میں آزادی کا شعور پیدا کرتا ہے جو اس کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں دنیا بھر سے غلامی رفتہ رفتہ ختم ہوتی جارہی ہے جبکہ اس کی باقیات آج بھی موجود ہیں جو کسی نہ کسی شکل میں آج کے جدید انسان کو متاثر کیے ہوئے ہیں ہیں غلامی سے نجات کا عالمی دن پہلی بار انیس سو اٹھاسی میں منایا گیا اور اس کے بعد یہ ہر سال منایا جاتا ہے ہر سال 2 دسمبر کو غلامی کی جدید شکلوں پر بات کی جاتی ہے اور آج کے موجودہ معاشرتی حالات میں غلامی کی جو مختلف اشکال ہمیں نظر آتی ہیں جو ترقی پذیر ممالک میں بھی ہیں اور ترقی یافتہ ممالک میں بھی ہیں اور آج کے انسان کو متاثر کیے ہیں ان کے لیے عملی جدوجہد اور اقدامات کی سفارشات بھی عمل میں لائی جاتی ہے غلامی ایک ایسا تصور ہے جسکو تاریخی تناظر میں معاشرتی تحفظ حاصل رہا ہے اور اس کے خلاف اقدامات تاخیر سے اٹھائے گئے غلامی نے صدیوں انسان کو محکوم رکھا اور آزادی کا لطف اٹھانے سے محروم رکھا آج کا دن انسانوں کو موقع دیتا ہے کہ وہ اس تصور کے خلاف آواز بلند کریں اور دنیا کو پائیدار انسانیت کی جانب لے جائیں غلامی کے تصور کو سمجھنے کے لئے ہمیں تاریخ کے تناظر میں اس کو سمجھنا ہوگا غلامی کی تاریخ کو بھی سمجھنا ہوگا انسان مختلف قبائل میں تقسیم ہو کر اس دنیا میں رہ رہا تھا ریاست کا تصورکمزور تھا طاقتور حملہ کرکے کمزور قبیلے کے افراد کو قتل کردیتے تھے اور مضبوط مردوں کو پیغام دیا جاتا تھا کہ تم زندگی کی قیمت پر اب غلامی کرو اس طرح دنیا بھر میں غلاموں کی ایک بڑی تعداد پیدا ہوئی تاریخی تصور میں غلاموں سے بھرپور کام لیا جاتا تھا عورتوں اور بچوں کا بھی بھرپور استعمال کیا جاتا تھا اور ان سے جبری مشقت لی جاتی تھی غلاموں کی حیثیت معاشرے میں کچھ بھی نہ تھی اورانکو ایک ملکیت سمجھا جاتا تھا تھا اور ان کو بیچا اور خریدا جا سکتا تھا غلام پر تشدد نہ صرف جائز سمجھا جاتا تھا بلکہ اسے معاشرتی تحفظ بھی حاصل تھا زراعت کا آغاز ہوا اور ریاست کی ابتدائی تشکیل کے بعد غلامی کے تصور میں بھی کچھ تبدیلی آئی اور غلامی بذریعہ قانون کا ایک نیا تصور سامنےآیا زراعت آج کے مقابلے میں غیر ترقی یافتہ حالت میں تھی اور اس کے لیے سخت جسمانی محنت کی ضرورت تھی اس ضرورت نے غلامی کو دوام بخشا طاقتور طبقات کسی نہ کسی شکل میں غلامی کو زندہ رکھنے کے لئے کمر بستہ تھے ایسے معاشرتی حالات شکیل دیئے گئے جو غلامی کے لئے قابل قبول سمجھے جائیں بادشاہ بطور تحفہ غلاموں کو دیا کرتے تھے ان میں مرد و عورت کی کوئی تمیز موجود نہیں تھی اور خوبصورت عورت بطورتحفہ ایک اچھا تاثر بھی موجود تھا عہدیدارریاست بھی یہی رویہ رکھتے تھے غلامی کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی اور اس کے خاتمے کے لیے عملی طور پر اقدامات نہ ہو سکے غلامی کا خاتمہ غلاموں کی ضرورت تھی اور غلام آواز بلند کرنے پر قتل کر دیے جاتے تھے غلامی سے نجات کی تحریک کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی اور اس کے خاتمے کے لیے تصورات و خیالات پیش کیے گئے اس کے لیے تصورات و خیالات غلاموں نے ہی پیش کیے جن کی غالب اکثریت کو قتل کر دیا گیا غلامی کے خاتمے کے لیے آواز بلند کرنا ایک جرم تھا اور غلام کا یہ جرم قتل کا موجب تھا غلام کو یہ حق نہیں دیا گیا تھا کہ وہ آواز بلند کر سکے اور اپنے حقوق معاشرے سے مانگے غلاموں نے ابتدا میں حق بطور غلام مانگا اور نہ ملنے پر غلامی کے خلاف تحریک کا آغاز کیا غلاموں کے لئے نظریات ،خیالات ،تصورات پیش کرنے والوں کو حکمران طبقے کی طرف سے انتہائی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے خلاف شدید قسم کا رد عمل بھی آیا جو خیالات تصورات پیش کیے گئے انہوں نے آگے چل کر غلامی پر کاری ضرب لگائی غلام طبقہ انصاف سے محروم تھا اور انصاف بطور حق نہ ملنے پر ان کے اندر بے چینی بڑھتی چلی گئی اور جوغلامی کے خلاف نظریات سامنے تھےان نظریات و خیالات نے حکومتی نظام تبدیل کیا اور جدید جمہوریت تک حالات کو لے گئے ظہور اسلام کے بعد غلامی پر کاری ضرب لگی اور غلاموں سے اچھا سلوک کرنے کی ہدایت دی گئی اور اس کے زیر اثر غلامی کی اشکال کے بتدریج خاتمے کا آغاز ہوا اسلام دنیا بھر میں جدید ترین مذہب ہےغلامی کے خاتمے میں اسلام کا ایک اہم کردار رہا ہے جو اس نے بطور مذهب ادا کیا اسلامی تعلیمات کے زیر اثر مسلم ریاست میں غلاموں کو حقوق حاصل رہے اور بتدریج آزادی ملی غلامی کی خاتمے میں جہاں معاشرتی حالات اور واقعات موجود رہے ہیں وہیں غلاموں کا بھی ایک اہم کردار رہا جنہوں نے اپنے حالات میں تبدیلی پیدا کی اور عملی جدوجہد میں حصہ لیا دنیا میں آج کچھ ملک ترقی یافتہ کا اور کچھ ممالک پسماندہ ہیں جہاں غلامی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے غلامی ترقی یافتہ اور پسماندہ دونوں ملکوں میں نظر آتی ہے آج کے جدید حالات میں غلامی نے اشکال تبدیل کر دی ہیں اور وہ ماڈرن یا جدید شکل میں نظر آتی ہے اب وقت آگیا ہے کہ غلامی کے جدید نظام میں اس کے خاتمے کے لیے کوشش کی جائے اور معاشرتی اخلاقیات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے معاشرتی اخلاقیات ہر دور میں غلامی کو تقویت دیتے رہے اور آج بھی یہ اخلاقیات جدید شکل میں اور تصور میں موجود ہیں اور آج کے دور میں طاقتور اور طاقتور طبقےکو یہ نظریات و خیالات تقویت دیتے نظر آتے ہیں جو کہ ایک المیہ ہے طاقتور طبقہ ہر طرح کے وسائل اور اپنی طاقت کا ہر سطح پر استعمال کرتا نظر آتا ہے اور جدید غلام ہر لحاظ سے پسماندگی کی عملی شکل میں ہمیں نظر آتا ہے




No comments:

What are the causes of skinny girls?

The number of thin girls in the society is increasing rapidly and an attempt will be made to understand its reasons. What are the reasons wh...