خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف انقلابی قدم
آفتاب احمد
حکومت سندھ کی جانب سے خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف انقلابی اقدامات کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس سلسلے میں ملازمت پیشہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے سندھ حکومت نے ملازمت پیشہ خواتین کے حقوق کے ایکٹ 2010 کا نفاذ کیا ہے، جس کی رو سے ان کو تحفظ مہیا کیا گیا ہے۔ جس کے تحت صوبے بھر میں تمام سرکاری محکموں کے ساتھ ساتھ نجی اداروں میں بھی اس مقصد کے لئے کمیٹیوں کی تشکیل کی جاچکی ہے۔ اب فیکٹریوں میں قائم کمیٹی وہاں کام کرنے والی خواتین کے لئے موجود ہے۔ ان لوگوں کی تحریری درخواست پر عملی کارروائی عمل میں لانے کی پابند ہے۔ اس طرح یونیورسٹی میں بھی یہ کمیٹیاں کام کررہی ہیں اور فعال بھی ہیں۔ صوبے بھر کے تمام سرکاری و نجی اسپتالوں میں بھی یہ کمیٹیاں قائم کی جاچکی ہیں اور وہاں بڑی تعداد میں کام کرنے والی خواتین جو بطور ڈاکٹر، نرس اور دیگر خدمات سرانجام دے رہی ہیں، اس کمیٹی کو کسی بھی زیادتی کی تحریری درخواست دے سکتی ہیں۔ نجی و سرکاری سطح پر خدمات سرانجام دینے والی خواتین براہ راست تحریری درخواستیں صوبائی محتسب کو بھی دے سکتیں ہیں، جس پر فوری نوعیت کی کارروائی عمل میں لائیجائے گی۔ صوبائی محتسب کا ادارہ دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف سرگرم عمل ہے اور ایسی تحریری درخواستوں کو اولین ترجیحات میں رکھتا ہے۔ خواتین کی کارکردگی مردوں کے مقابلے میں ہر شعبے میں بہتر ہے، کیونکہ وہ پوری سنجیدگی سے اپنے فرائض سرانجام دیتی ہیں۔ وہ دورانِ زچگی اضافی مراعات بھی حاصل کرتی ہیں جو ان کا حق ہے۔
خواتین کو ہراساں کرنے کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے اور عموماً ایسا اس لئے بھی کیا جاتا ہے کہ ان کے مقابلے میں موجود مرد مطلوبہ صلاحیت و قابلیت نہیں رکھتے اور اخلاقی دیوالیہ پن اُن کو ہراساں کرتا ہے۔ تعلیم کے شعبے میں خواتین بہترین خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ مرد اساتذہ کے مقابلے میں وہ پوری طرح سے اپنے فرائض سرانجام دیتی ہیں اور ان کی حاضری بھی پوری ہوتی ہے۔ بطور ماں بھی وہ ہمہ وقت تعلیم و تربیت فراہم کررہی ہوتی ہیں اور اس کے اثرات تعلیمی ماحول پر بھی محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ ابتدائی تعلیم کے پانچوں درجوں کے لئے خواتین اساتذہ کے ساتھ ساتھ مرد اساتذہ بھی اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور ان کی کارکردگی خواتین کے مقابلے میں کم تر ہے اور ان کی حاضری کی شرح شرمناک ہوتی ہے۔ حاضر ہونے کے باوجود وہ حاضر نہیں ہوتے اور اپنا وقت جدید موبائل فون سے کھیلنے میں گزارتے ہیں۔ جبکہ خواتین سنجیدگی سے درس وتدریس کرتی ہیں اور اُن کے اندر موجود ماں یا ماں کی شفقت بچوں کے لئے کارآمد ثابت ہوتی ہے۔ ابتدائی تعلیم کے پانچوں درجوں کے لئے خواتین اساتذہ ہی رکھنے سے تعلیم میں بہت زیادہ بہتری لائی جاسکتی ہے۔ خواتین اساتذہ پر یہ دباؤ بھی موجود ہوتا ہے کہ وہ تدریس کا عمل درست کریں یا مردوں کی طرح سنجیدگی دکھائیں اور یہ دباؤ ہراساں کرنے کی حد تک ان پر موجود ہوتا ہے۔ اس طرح مرد اساتذہ کو اخلاقی جواز مل سکتا ہے جو کہ اکثر نہیں ملتا ہے۔
شعبہ تعلیم سے ہٹ کر بھی دوسرے تمام شعبوں میں باعمل خواتین اپنی کارکردگی دکھا رہی ہیں اور کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جہاں انہوں نے کوئی کمال نہ دکھایا ہو۔ سیاست کے میدان میں بھی خواتین نے بہت سے عہدے حاصل کرکے اپنا لوہا منوایا ہے۔ خواتین میں موجود سنجیدگی فطری ہے اور بعض حالات میں یہ سنجیدگی اور کارکردگی ان کو ہراساں کرنے کا مؤجب بھی بنتی ہے۔ ہراساں کرنے کا عمل دراصل اپنے آپ کو کمتر سمجھنے کا ایک احساس ہے اور یہ اس وقت جنم لیتا ہے جب کسی خاتون کی صلاحیت و قابلیت مرد کو پریشانی میں مبتلا کرتی ہے۔ ہراساں کرنے کی ایک بنیاد جنسی اور جنس سے وابستہ بھی ہے، جس کے تحت طاقت کا اظہار مختلف طریقوں سے کیا جاتا ہے۔ ملازمت پیشہ خواتین کے لئے خوف و ہراس کا ماحول پیدا کیا جاتا ہے اور وہ خوفزدہ ہوکر یا تو ملازمت چھوڑ کر گھر بیٹھ جاتی ہیں یا پھر مصلحت سے کام لیتے ہوئے اور اپنی مجبوری کو مدِنظر رکھتے ہوئے مرد ساتھیوں کی بات مانتی ہیں۔ ایسا ماحول پیدا کرنا غیراخلاقی اور غیر قانونی ہے اور اس کے خلاف ملازمت پیشہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے ایکٹ 2010کے تحت کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔ خواتین کی تحریری درخواست اور تحریری درخواست کی حوصلہ افزائی اس طرح کے ماحول کے خاتمے میں مددگار ثابت ہوتی ہے اور ماحول کو بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔ مرد ساتھیوں کی جانب سے آوازیں کسنے کے واقعات بھی رپورٹ ہوتے ہیں اور یہ عمل اخلاقی دیوالیہ پن کی انتہا ہے۔ جہاں خواتین اس عمل سے ہراساں ہوتی ہیں وہیں مردوں کی جانب سے بیک وقت کمزوری و طاقت کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ جسمانی طور پر کمزور خواتین پر آوازیں اس لئے بھی کسی جاتی ہیں کے وہ مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ ایسا کرنے والے مرد خود اپنی کمزوری کا اظہار بھی کررہے ہوتے ہیں۔ عموماً وہ مرد ہی کسی خاتون پر آوازیں کستا ہے جو اخلاقی طور پر کمزور اور جسمانی طور پر مضبوط ہوتا ہے۔ یہ عمل خوفزدہ کرنے کے زمرے میں بھی آتا ہے۔ اس کے خلاف تحریری درخواست پر کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے اور اس کو نظرانداز کرنے سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ آوازین کسنے والا مرد پھر خاتون کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے اور یہ دوسرے درجے میں ہوتا ہے۔ یہ عمل بھی ہراساں کرنے میں آتا ہے اور خلاف قانون ہے، جس کی سزا مقرر ہے۔ ہاتھ پکڑنے کا عمل اگر خاتون کی رضامندی سے ہو تو یہ غیرقانونی عمل نہیں ہے اور کسی خاتون کی جانب سے تحریری درخواست اس امر کا ثبوت ہوتا ہے کہ اس کی رضامندی شامل نہیں تھی۔
افسران ماتحت خواتین کو ہراساں کرنے کا باعث بنتے ہیں اور ایسے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ زبردستی تعلق رکھنے پر مجبور کرنا بھی اس زمرے میں آتا ہے۔ انکار پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دینا دراصل جنسی ہراساں کرنا ہے، جس کی سخت سزا مقرر ہے۔ ماتحت کی دفتری مراعات اور ترقی کے مواقع جو ذاتی تعلقات سے نتھی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مجبوری کی حد تک معاملات کو لے جایا جاتا ہے، جو کہ جنسی ہراساں کرنا ہے۔ خاتون کی کسی کمزوری یا ذاتی معاملے کو بھی اس ضمن میں استعمال میں لایا جاتا ہے اور اس سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ماتحت کو ملازم کی جگہ غلام سمجھ کر کیا جانے والا سلوک جنسی ہراساں کرنا ہے اور خواتین کو خوفزدہ کرکے مطلوبہ مقاصد حاصل کرلئے جاتے ہیں۔ عموماً خواتین بھی اس میں مرد افسران کا ساتھ دیتی ہیں۔ یوں خاتون، خاتون پر ظلم کرتی ہے اور بدلے میں کچھ مراعات یا فوائد حاصل کرتی ہے۔
صوابدیدی اختیار کا غلط استعمال موجود ہے اور یہ صوابدیدی اختیارات خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے میں بھی استعمال ہورہے ہیں۔ مطلوبہ مقاصد حاصل نہ ہونے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں اور اشاروں میں اس کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ عورت مرد کے اشاروں کو بخوبی سمجھ سکتی ہے کیونکہ اس کی حساسیت غیرمعمولی ہوتی ہے اور ایسا بطور عورت اسے برتری حاصل ہے۔ وہ مرد کا ارادہ بغیر بات کئے سمجھ لیتی ہے اور بعض صورتوں میں اس قابل بھی نہیں ہوتی ہے کہ کوئی قانونی کارروائی اس ضمن میں کرسکے۔ خواتین اس پر مختلف طریقوں سے ردعمل دیتی ہیں۔ کچھ خواتین مزاحمت نہیں کرتیں ہیں اور یہ دراصل وہ اپنے آپ سے ظلم کرتی ہیں۔ دوسری خواتین اس کے خلاف ردعمل ظاہر کرتی ہیں اور بعض حالات میں تحریری درخواست دیتی ہیں اور یہ عمل ان کے حقوق کو استحکام کی جانب لے جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ خواتین ایسی ہوتی ہیں جو ملازمت چھوڑ دیتی ہیں۔ جو خواتین ملازمت چھوڑ کر گھر بیٹھ جاتی ہیں وہ اپنے آپ کے ساتھ ساتھ معاشرے کے ساتھ بھی ظلم کرتی ہیں کہ معاشرہ ان کی خدمات سے محروم رہ جاتا ہے اور ان کی تعلیم بھی ضائع ہو جاتی ہے۔
ملازمت پیشہ خواتین کے حقوق کا تحفظ 2010ء کے ایکٹ میں موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کا بھرپور فائدہ معاشرے کو بہتر بنانے کے لئے اُٹھایاجائے اور اخلاقی بنیادوں پر ایک ایسا ماحول تشکیل پائے جہاں خواتین کی عزت کی جائے اور ان کو ہراساں کرنے والوں کے خلاف فوری نوعیت کی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
No comments:
Post a Comment