معاشرے میں کم عمر لڑکی کی شادی زیادہ عمر کے مردوں سے اس لئے کرائی جاتی ہے کہ اس طرح سے کچھ رقم کما لی جائے اور چھوٹے چھوٹے بچوں کو کام پر لگا دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے خاندان کی مدد کرنے کے قابل بنکیںکیں اور اس کے پس منظر میں ضرورت کام کرتی ہے جو ایک غریب خاندان کو بچوں کے استحصال کا موقع فراہم کرتی ہے ۔ بہبودِ آبادی کے جدید تصورات ایک فلاحی مملکتِ کے بغیر بامقصد ثابت نہیں ہوسکتے جہاں بچوں کو ان کی عمر کے مطابق تعلیم و کھیل کود کی سہولیات کے ساتھ ساتھ صحت اور معاشرے میں باوقار انداز زندگی کے لئے مواقع فراہم کئے جاتے ہیں - پاکستان میں موجود سماجی روایات کی وجہ سے جہاں آبادی میں اضافہ ہورہا ہے وہیں پیدا ہونے والے بچوں کا استحصال جواز کے ساتھ کیا جاتا ہے اور اگر کسی تندور یا چھوٹے صنعتی یونٹ میں کوئی بچہ کام کرتا ملتا ہے تو اس جواز کو سامنے لایا جاتا ہے کہ اس کا باپ غریب آدمی ہے اور یہ بچہ کام نہیں کرے گا تو اس کا خاندان زندہ نہیں رہ سکتا ۔
پاکستان میں اس قسم کے تصورات بچوں کی کم عمر شادیوں سے متعلق بھی موجود ہیں اور ان کی شادیاں پیسے کی لالچ میں کی جاتی ہیں اور لڑکی کو زیادہ عمر کے مردوں سے بیاہ دیا جاتا ہے ۔ معاشرے میں بہبودِ آبادی کے جدید تصورات ایک فلاحی ریاست کے تصور سے جڑے ہوئے ہیں اور اس کے لئے درکار سماجی تبدیلیوں کے لئے کوئی جدوجہد نہیں نظر آتی - میڈیا اثر انداز ہوتا ہے تو اس کا رخ ان اثرات کو ضائع کرنے کا باعث بن جاتا ہے اور بامقصد تبدیلی کا رخِ متعین نہیں ہوتا -
قانون سازی اھم ہے لیکن قانون کی درجہ بندی فائدہ مندی کو نقصان دیتی ہے اور اس کے مطابق تبدیلی موثر ثابت نہیں ہوتی ہے - قانون کے مطابق انصاف حاصل کرنے کے لئے درکار وسائل مسئلہ پیدا کرتے ہیں اور ہر شخص قانون کے مطابق انصاف حاصل کرنے کے قابل نہیں ہے ۔
سرکاری سطح پر کئے گئے اقدامات بھی موثر نہیں ہیں اور اس کے لئے درست اعدادوشمار بھی موجود نہیں ہیں - اج کے ترقی یافتہ ممالک میں جمہوریت بھی بہت مضبوط حالت میں نظر آتی ہے اور اس کے باعث جو تبدیلی آتی ہے وہ مثبت ہی ہوتی ہے اور اگر بہبودِ آبادی کا جائزہ لیں تو پائیدار اور مستقل طور موجود جمہوریت کے بغیر بہبودِ آبادی نہیں ہو سکتی اور نہ ہی مقاصد کیلئے ماحول مل سکتا ہے
No comments:
Post a Comment