Thursday, May 21, 2020

بھارت میں اقلیتوں کے مسائل



کچھ عرصے سے یہ سوال عالمی سطح پر شدت سے ابھرا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے ملک بھارت میں اقلیتوں کو کس قسم کی صورتحال اور مسائل کا سامنا ہے جہاں سیکولر دستور بھی موجود ہے اور فعال عدالتی نظام بھی ہے اور معاشرے میں پائی جانے والی بے چینی کی نوعیت کو بھی سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے اور تازہ ترین تحقیق کے بعد جو حقائق سامنے آئے ہیں انہوں نے بھارتی جمہوریت پر بھی سوالات گہرے کردئیے ہیں کہ عوام کو حاصل قانونی اور دستوری حقوق کو کس قدر تیزی اور مہارت سے قانونی اور دستوری انداز سے ہی کچلا جارہا ہے ۔ اس وقت بھارت کو عالمی سطح پر اقلیتوں کو درپیش مسائل کے تناظر میں ایک خطرناک ملک سمجھا جارہا ہے اور اس کی ٹھوس وجوہات بھی موجود ہیں وہاں عدالت اور عدالتی نظام کو شدت پسندی سے سنگین خطرات لاحق ہوچکے ہیں اور عدلیہ پر بھرپور دباؤ موجود ہے جس نے صورتحال کو مزید گمبھیر بنادیا ہے اور عدالتی نظام عوام خصوصاً اقلیتوں کو بنیادی حقوق مہیا کرنے کے لئے حکم دینے سے قاصر نظر آتا ہے اور جہاں کہیں اور جس ریاست میں اقلیت اکثریت میں موجود ہے وہاں صورتحال زیادہ بگڑی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور اس کی ایک مثال کشمیر بھی ہے جس کو بھارت اپنا اٹوٹ انگ یا حصہ کہتا ہے اور وہاں ایسے قوانین متعارف کرائے گئے ہیں جو واضح طور پر ریاست میں اکثریت اور بھارت میں اقلیت مسلمانوں کیلئے حد درجہ نقصان دہ ہیں اور اس کی روشنی میں کشمیر میں اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے انتظامی سطح کے ایسے اقدامات بھی کئے گئے ہیں جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی شمار کئے جاسکتے ہیں اور بین الاقوامی میڈیا سے اس کو چھپایا گیا ہے اور مقامی سطح پر میڈیا ورکرز کی بہت بڑی تعداد کو ان کے اپنے گھروں میں نظر بند کیا گیا ۔ بھارتی حکومت کی طرف سے ایسے افراد کی حوصلہ افزائی کرنے کی خبریں موجود ہیں جو اقلیتوں کیلئے اپنے ایسے خیالات کا اظہار کریں جن سے نفرت کو فروغ ملے بظاہر بھارتی دستور اس کے مخالف نظر آتا ہے اور یکساں حقوق کا تصور پیش کرتا ہے لیکن چند دہائیوں پر مشتمل سیاست اور اس کے انداز و ضرورت نے عملی طور پر دوسرا رخ سامنے لایا ہے جو اب عالمی سطح پر تشویش پیدا کررہا ہے اور جس نے بھارت کا ایک اور چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے ۔ کشمیر میں ہی نیا ڈومیسائل قانون متعارف کرایا گیا جو متنازعہ بنا اور یہ تاثر ابھرا کہ بھارت اقلیتوں کے تحفظ کیلئے نہ صرف اپنی ذمہ داری سے راہ فرار اختیار کئے ہوئے ہے بلکہ اقلیتوں پر ان کی زندگی مشکل بنانے کی کوششوں میں ملوث ہے جس کی ترديد سرکاری سطح پر کی گئی اور وہ وہیں اس بات کا جواب دینے سے بھی قاصر نظر آتا ہے کہ کیوں کر اقلیتوں کے کاروبار  دکانیں اور دفاتر جلائے جارہے ہیں اور ان پر تشدد روز مرہ کا معمول بنا ہے اور جس کو عالمی سطح کا میڈیا دکھا بھی رہا ہے آج صورتحال اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ بھارت نے سپریم کورٹ میں یہ موقف اپنایا کہ انٹرنیٹ تک عوام کی رسائی بنیادی حقوق میں شمار نہیں ہہوتی اب قیدیوں میں کرونا وائرس سے ہلاکتوں میں اضافے کا سیاسی پہلو بھی قابلِ غور ہے جس کو ہمیں سمجھنا ہوگا اور ہلاکتوں میں اقلیتوں کے تناسب کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے اپنی رائے بنانی ہوگی اور خصوصاً اقوامِ متحدہ کی طرف سے جن قراردادوں کی منظوری دی گئی اور بھارت کی طرف سے اس کی پاسداری نہ کرنا بھی آج کے بین الاقوامی تناظر میں اھمیت اختیار کر گیا ہے ۔ بھارت کی سیاست اور کی ضرورت کا تناظر میں وقت کے ہاتھوں آنے والی تبدیلیاں قابل غور ہیں جس نے آج بھارت میں اقلیتوں کیلئے مسائل سے لیکر زندگی قائم رکھنے تک کے سوالات پیدا کردئيے ہیں اور جس کا جواب عالمی سطح کے بیانیہ میں موجود ہونا چاہیے جو وقت کے ساتھ ساتھ بھارت کے حق میں نہیں ہے کیوں کہ اب حقائق کو اس سے وابستہ معلومات کو دنیا سے چھپانے میں کامیابی نہیں مل سکتی اور اس کی وجہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی ہے جو عوام کے بہترین حق میں بھی ہے اور اس کی تحت سچ اور جھوٹ میں امتیاز بھی کیا جاسکتا ہے 

No comments:

SENATE OF PAKISTAN

Under the constitution of Pakistan, there is a two-member parliament, one is the National Assembly and the other is the Senate of Pakistan.T...